پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں ہر نظامِ حکومت اپنے ثمرات دینے سے محروم رہا ہے۔اس میں پارلیمانی جمہوریت، صدارتی نظام اور فوجی حکومتوں کے تمام تجربات نے عوام کو ہایوسیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ہر آنے والا حکمران عوام کو سہانے خواب تو ضرور دکھاتا ہے لیکن ان کے خوا بوں میں رنگ بھرنے سے معذور رہتا ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اقتدار کو ذا تی منفعت اور مال و دولت کے حصو ل کی سیڑھی سمجھا جاتا ہے۔ملکی مفادات ذاتی مفاد ات کے تابع ہو جائیں تو ترقی کا تصور محال ہو جاتا ہے۔حلف تو یہی لیا جاتا ہے کہ حکومت ملک کے خزا نوں کو ایمانداری اور دیا نت داری سے ملکی مفاد میں بر و ئے کار لائیگی لیکن بدقسمتی سے ملکی خزانہ ذاتی کاروبار کے پھیلائو میں استعمال ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ملکی دولت کو شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کر لیا جاتاہے جس سے ملکی ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے۔قانون کو ذاتی مفادات کی خاطر رو بعمل لانے کا وہ ڈرامہ جس کا آغاز گورنر جنرل غلام محمد سے شروع ہوا تھا آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے جس میں حکومت عوامی فلاح و بہبود کی بجائے ذاتی فلاح و بہبود کو زیادہ مقدم جانتی ہے۔ موجودہ دور میں دولت نے جسطرح سے اپنی افادیت ، اثر پذیری اور قوت کو منوایا ہے ہے اس کے بعداہلِ اقتدار طبقوں کا حصولِ دولت کیلئے اندھا ہو جانا سمجھ میں آتا ہے۔فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان،جنرل یحی خان،جنرل ضیا ا لحق اور پھر جنرل پرویز مشرف نے عوامی امنگوں کے نظر انداز کئے جانے اور دولت سمیٹنے کے اس انداز کو جواز بنا کر اقتدار پر قبضے کی راہ تو ضرور ہموار کی لیکن ان کی فوجی مداخلت بھی وہ نتائج پیدا کرنے سے قاصر رہی جس کیلئے اتنا بڑا قدم اٹھا یا گیا تھا۔ہوا یہ کہ ان فوجی حکمرانوں کو بھی آخرِ کار چند سیاسی خاندانوں کی حمائت پر تکیہ کرنا پڑا جو پہلے ہی کرپشن اور لوٹ کھسوٹ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
جنرل پرویز مشرف کی مثال ہما رے سامنے ہے کہ اس نے پانچ نکاتی ایجنڈے کے تحت اقتدار پر قبضہ کیا تو اسے بھی ان سیاسی خاندانوں کی اعانت لینے کی ضرورت محسوس ہوئی جن کی شہرت پہلے ہی داغدار تھی ۔جنرل پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں کرپشن پر قابوو بھی پایا گیا ،قومی پیداوار میں اضافہ بھی ہوا۔برآمدات نے بھی نئے اہداف قائم کئے،بیرونی سرمایہ کاری سے ملک میں دولت کی ریل پیل ہوئی جس سے عوام کی حالت میں تبدیلی آنا شروع ہوئی لیکن اپنے اقتدار کو دوام عطا کرنے کی خو اہش جنرل پرویز مشرف کے راستے کا کانٹا بن گئی اور اسے ذلیل و خوار ہو کر اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فوجی حکومتوں نے کئی اہم معرکے بھی سر کئے لیکن ان کے اقدامات سے اداروں کا کمزور ہونا اور پھر فوجی حکومتوں کی پالیسیوں کے عدمِ تسلسل نے ترقی کے سفر کو منزلِ مقصود سے اور بھی دور کر دیا جس کی وجہ سے عام شہری کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہو گئی۔
سچ تو یہ ہے کہ عوام موجودہ کرپٹ نظام سے تنگ آئے ہوئے ہیں اور وہ کوئی ایسا راستہ چاہتے یں جس سے اس کرپٹ نطام سے ان کی جان چھوٹ جائے اور ملکی خزانوں سے وہ بھی مستفیذ ہو سکیں۔یورپ نے فلاحی ریاست کے تصور سے جس طرح اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کا خیال رکھا ہوا ہے وہ ہم سب کیلئے باعثِ تقلید ہو نا چائیے لیکن ہم ذاتی اغراض و مقاصد سے بالا تر ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ہمارے ہاں جسے عوام اپنے ووٹو ں سے اقتدار کی مسند پر بٹھا تے ہیں وہ خود کو خدا سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور وہ کچھ کرنا شروع کر دیتے ہیں جس کی آئین و قانون انھیں بالکل اجازت نہیں دیتا ۔وہ اقتدار کو گھر کی باندی بنا لیتے ہیں اور ملکی خزانے کو ذاتی ملکیت تصور کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے کرپشن کا دور دورہ شروع ہو جاتا ہے۔ انسان جب ہوس پرستی کا شکار ہو جاتاہے تو پھر اس کی یہ خو اہش اسے کہیں بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتی وہ دولت بڑھانے کے نت نئے راستے تلاش کرتا رہتا ہے تاکہ وہ دولت کے پہاڑ کھڑے کر سکے ۔ملک میں موجود ہ نجکاری کا ڈرا مہ کرپشن کا ایسا دروازہ ہے جس میں دوستوں کو نوازنے کا ڈرامہ پوری شدو مد سے رچا یا جا رہا ہے۔
Parliament
ملکی اثاثے اونے پونے داموں حاصل کرنے کا اس سے آسان نسخہ اور کوئی نہیں ہے۔سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اسی لئے تو بو لا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کے کندھوں پر نجکاری کا موجودہ فیصلہ ایسا فیصلہ ہے جس میں ملکی اثا ثے چند ہاتھوں میں مرکوز ہو کر رہ جائیں گئے اور ملک ان مٹھی بھر افراد کے ہاتھوں میں یرغمال بن جائیگا۔مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ فروری ٢٠٠٨ میں آٹے اور چینی کے مل مالکان نے ذخیرہ اندوزی سے ایسی مصنوعی قلت پیدا کی تھی کہ مسلم لیگ (ق) کو الیکشن میں بری طرح سے شکست اٹھانا پڑی تھی ۔مسلم لیگ (ق) جہاں بھی الیکشن مہم کیلئے جاتی تھی لوگ آٹے اور چینی کی عدمِ دستیابی پر سراپا احتجاج بن جاتے تھے اور یوں مسلم لیگ (ق) کے پاس عوامی حمائت کا کوئی جواز باقی نہیں رہا تھا۔ صنعتی اجارہ داری کا یہی تو نقص ہے کہ ریاست ایک مخصوص گروہ کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے لہذا ریاست کسی بھی شعبے میں اجارہ داری کی اجازت نہیں دیتی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت پرنجکاری کیلئے آئی ایم ایف کا دبائو ہے اور اسے نجکاری کیلئے ا قدامات اٹھانے پڑ رہے ہیں لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ حکومت ان اداروں کی نجکاری شرو ع کر دے جو منافع بخش ہیں اور انھیں اپنے من پسند افراد میں کوڑیوں کے بھائو فروخت کر دے۔ایک ٹو لہ ہے جس کی نگاہ ملکی اثاثوں پر مرکوز ہے وہ ان اثا ثوں کو ہر حا ل میں خریدنا چاہتا ہے ۔انھوں نے اپنی خوا ہشات کو اتنا بے لگام بنا لیا ہے کہ ان کے سامنے بے روز گار ہونے والے مزدروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ وہ اپنی ہوسِ دولت پرستی میں کچھ بھی کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہوئے ہیں۔نجکاری کا پاکستانی ڈرامہ نوے کی دہائی سے شروع ہو تھا لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس ڈرامے سے نہ تو ملکی معیشت بہتر ہوئی اور نہ ہی ملکی خزانوں میں بہتری کے آثار دیکھے گئے۔میاں محمد نواز شریف کی دوسری حکومت(١٩٩٧ سے١٩٩٩ تک) میں زرِ مبادلہ کے ذخائر ٣٠ کروڑ ڈ الر کی انتہائی خطرناک حد تک آپہنچے تھے حا لانکہ ان کے اس دور میں بھی نجکاری اس پہلو کومدِ ِ نظر رکھ کر ہوئی تھی کہ ملکی خزانوں میں اضافہ ہو گا اور حکومت پر مالی دبائو کم ہو جائیگا لیکن نہ تو مالی خسارہ کم ہو اور نہ ہی ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی۔
اس روش سے مخصو ص اشرافیہ اور مخصوص دوست مالا مال ہوں گئے اور ملک اہم اثاثو ں سے محروم ہو گیا (نہ خد ا ہی ملا نہ وصالِ صنم ) والی کیفیت میں سب کچھ ہڑپ کر لیا گیا اور غریب روزگار کو ترستا رہ گیا جس سے بھوک اور خود کشیوں جیسے غیر انسانی افعال میں اضافہ ہو گیا۔۔۔۔ ہمارے سیاسی نظام کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس میں ا حتساب کا کوئی موثر نظام نہیں ہے ۔ہما راملک جمہوریت کے نام پر شہنشاہانہ انداز میں چلایا جاتا ہے اور ہر شخص شہنشاہِ وقت کی خو شنودی کو سعادتِ دین و دنیا تصور کرتا ہے کیونکہ شہنشاہ کی خوشنودی کے بغیر کسی کو کچھ بھی عطا نہیں ہوتا۔ہر جماعت اسی شہنشاہانہ انداز کو اپناتی ہے اور یہ سلسہ نسل در نسل دراز ہوتا جاتا ہے۔باپ کے بعد بیٹا اور پھر ایک اور بیٹا اس کارِ خیر کیلئے میدان میں اترتے رہتے ہیں اور عوام جوش و خوش سے نعرہ زنی میں مشغول رہتے اور اپنے ان شہنشاہوں کو خدائی صفات کا حامل ثابت کرنے کیلئے اپنا سارا زور لگاتے رہتے ہیں۔شہنشاہ مال و دولت سمیتتے رہتے ہیں اور مفلوک الحال کارکن نعروں سے اپنا پیٹ بھرتے رہتے ہیں۔ان کے ہاں فاقہ مستی ،محرومی اور غربت ڈیرے ڈالے رکھتی ہے لیکن شہنشاہ پھولوں کی سیج پر سو تے ہیں ۔ستم تو یہی ہے کہ ایک مخصوص ٹو لہ ہے جو ہر قسم کے احتساب سے بالا ترہے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ میڈیا پرشوکت عزیز،چوہدری پر ویز الہی،مونس الہی،مخدوم امین فہیم ،راجہ اشرف پرویز ،سید یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری کا کرپشن کے حو الوں سے بڑا نام تھا لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ قصہ ماضی بن گیا کیونکہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ایک کلب کی مانند ہیں جس کے ممبران نے ایک دوسرے کے تحفظ کا حلف اٹھا یا ہوا ہے۔لوگوںکو دکھانے کیلئے کبھی کبھی کسی ایک کو تھوڑا بہت گھسیٹنے کا ڈرامہ رچا یا جاتا ہے لیکن پھر صا ف و شفاف باہر نکال لیا جاتا ہے کیونکہ اقتدار گھوم پھر کر ان کے در میان ہی رہنا ہوتا ہے۔۔