کراچی (جیوڈیسک) ملک میں ’’کوچنگ ڈرامے‘‘ کیخلاف آوازیں بلند ہونے لگیں، ہیڈکوچ کیلیے نظر انداز کیے جانے پر سابق کرکٹر محسن حسن خان بھی تلملا اٹھے، انھوں نے کرکٹ بورڈ کو کھری کھری باتیں سنا دیں، سابق اوپنر نے دل کی بھڑاس نکال کو خود کو بیٹنگ کوچ کے لیے بھی پیش کر دیا۔ محسن خان نے کہا کہ وقار یونس کا تقرر قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، ماضی میں ملک کی رسوائی کا باعث بننے والوں کو نوازا جا رہا ہے، وزیر اعظم صورتحال کا نوٹس لیں، ضرورت پڑی تو عدالت کا دروازہ کھٹ کھٹانے سے بھی گریز نہیں کروں گا، عزت کے ساتھ بورڈ کوئی عہدہ دینا چاہتا ہے تو حاضر ہوں، انھوں نے ان خیالات کا اظہار کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
محسن حسن خان نے کہا کہ مجھے پہلے ہی پتہ چل گیا تھا کہ ہیڈ کوچ کی تقرری کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، اس کے باوجود عہدے کے لیے غلط افراد کے اپلائی کرنے پر میدان میں آیا، پی سی بی نے درخواستیں طلب کرکے امیدواروں کو شارٹ لسٹ اور پھر انٹرویو کے بعد انتخاب نہ کرکے اپنا اعتبار کھودیا، اس سے نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک بھی سبکی ہوئی، پوری دنیا کے سامنے سفید جھوٹ بولا گیا اور قوم کو بے وقوف بنایا گیا۔
انھوں نے کہا کہ بورڈ میں سفارش اور چمچہ گیری چل رہی ہے مگر میں ایسی چیزوں پر یقین نہیں رکھتا، انھوں نے کہا کہ 18 کروڑ عوام کے کرکٹ بورڈ کو گھر کی جاگیر سمجھ کر چلانے کی کوشش ہو جا رہی ہے، چیئرمین نجم سیٹھی سے امید تھی کہ وہ اچھا صحافی ہونے کے ناطے وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق پاکستان کرکٹ میں بہتری لائیں گے لیکن وہ ایسا نہیںکر سکے،قومی ٹیم بہتری کی جانب چل پڑی تھی مگر گذ شتہ 2 برسوں میں برباد ہوکر رہ گئی، قومی کرکٹ کو نقصان پہنچا اور عزت دائو پر لگ گئی، محسن خان نے کہا کہ بورڈ کی بعض اندرون خانہ باتیں منظر عام پر نہیں لانا چاہتا۔
انھوں نے کہا کہ میں عزت نہ ملنے پر بورڈ سے خاموشی کے ساتھ الگ ہوا، نیشنل اسٹیڈیم میں ریجنل منیجر کی ملازمت فضول اور حرام سمجھ کر چھوڑی، میں ملک کی بدنامی نہیں چاہتا، بدقسمتی سے ایماندار اور صاف ستھرے افراد کو گھر بھیجا اور ماضی میں بدنامی کا باعث بننے والوں کو عہدے دیے جا رہے ہیں، محسن حسن خان نے کہا کہ اگر شاہد خان آفریدی غیر معمولی کارکردگی نہ دکھاتے تو ہم ایشیا کپ سے باہر ہو جاتے، انھوں نے وقار یونس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کوچ وہ نہیں ہوتا جو اپنی ذمہ داری ادھوری چھوڑ کر چلا جائے، یہ عہدہ رول ماڈل ہوتا ہے۔