یہ سمندر ہے۔اِس میں پانی ہے۔سمندر میں پانی کی کبھی کمی نہیں ہوتی۔اِس میں اُتار چڑھائو آتا رہتا ہے۔جب یہ چڑھائی کرتا ہے تو کسی کی نہیں مانتا خواہ وہ کتنا ہی لاٹ صاحب کیوں نہ ہو۔ایک ملک کے بادشاہ کواُس کے مصاحبوں اور درباریوں نے باور کرایا کہ ساری دُنیا آپ کے حکم کے تابع ہے۔آپ کا حکم زمین پر چلتا ہے ستاروں پر چلتا ہے اخباروں پر چلتا ہے ہوا پر چلتا ہے اور سمندر پر بھی چلتا ہے۔
یک روز بادشاہ سلامت سمندر کے کنارے کرسی بچھائے بیٹھے تھے ۔مصاحبوں سے پوچھا یہ جو لہریں بڑھی آرہی ہیں ہمیں تنگ تو نہیں کریں گی؟۔مصاحبوں نے فوراً جواب دیا حضور اِن کی کیا مجال اُلٹا لٹکادیں گے۔
اسی اثنا میں لہریں جھپٹ کر آئیں بادشاہ سلامت بہت ناراض ہوئے۔سختی سے ڈانٹا ”اے سمندر پرے ہٹ جا میرے پائوں بھیگتے ہیں ۔سمندر نے ایک نہ سُنی اوربادشاہ کو بھگودیا یا قریب قریب ڈبو ہی دیا۔بادشاہ سلامت نے اپنے درباریوں اور مصاحبوں سے جواب طلب کیا ۔وجہ بیان کرو تمہارے خلاف کیوں نہ ضابطے کی کاروائی کی جائے ؟۔تمہارا تو بیان تھا کہ میری سلطنت عام ہے ۔سمندر تک میرا غلام ہے لیکن یہ اقدام بعد اِز وقت تھا ۔اس دوران خود بادشاہ سلامت کے خلاف ضابطے کی کاروائی ہوچکی تھی۔عالم پناہ کوپہلے یہ بات سوچنی چاہیے تھی اپنے مصاحبوں اور درباریوں پر اتنا بھروسہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔
سو یہی حال ہمارے حکمرانِ اعلیٰ کا بھی ہے ملک کے کیا حالات ہیں اور کس سمت جارہا ہے ۔مگر ہمارے حکمران ابھی تک خواب غفلت میں مبتلا ہیں اور صرف اپنی ہوس کی دوڑ دھوپ میں مگن ہیں آس پاس خوش فہمیوں اور تعریفوں کے پُل باندھنے والوں کی باتوں میں مگن و مدہوش ہیں۔
ملک میں انتہا درجے کی انارکی پھیلی ہوئی ہے ۔لاقانونیت عروچ پر پہنچ چکی ہے۔دہشت گردی کم ہونے کی بجائے دِن بدن پورے ملک میں پھیلتی جارہی ہے ۔اور خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے نکل کر اب سندھ کی طرف زور پکڑ چکی ہے اور جناب وزیر داخلہ صاحب بجائے کسی عملی اقدامات یا لائحہ عمل طے کرنے کے اُلٹا کراچی کے عوام کو مزید خوف میں مبتلا کر رہے ہیں کہ آئندہ دنوں میںکراچی میں دہشت گردی اور خون ریزی کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے بلکہ اب تولکھتے لکھتے انگلیاں بھی تھک چکی ہیںکہ جب تمام چیزوں کی معلومات پہلے سے وزیر موصوف کو مل جاتی ہے تو اِن کا سدباب کیوں نہیں کیا جاتا ؟طویل عرصہ سے یہی سلسلہ جاری ہے دہشت گرد اپنا کام کرکے چلتے بنتے ہیں۔
Terrorist
تمام اطلاعات معلومات انتظامات دھرے رہ جاتے ہیں اور ہمیشہ کی طرح رٹا ہوا بیان دے دیا جاتا ہے کہ دہشت گردوں تک پہنچ چکے ہیں جلد بڑی خوشخبری ملے گی۔خیر سے اِ س حکومت کو پانچ سال پورے ہوگئے لیکن ابھی تک وہ بڑی خوشخبری نہ مل سکی۔بہرحال بات کچھ اور ہو رہی تھی اور کہاں سے کہاں نکل گئی۔ دراصل جب تک خوشامدیوں کے ٹولے ہمارے حکمران اعلیٰ کو گھیِرے رہیں گے ایسا ہی سب چلتا رہے گا ۔
تمام ادارے زبوں حال ہیں ریلوے بالکل تباہ و برباد ہوچکا ہے مدتِ اسمبلی میں سب سے زیادہ سوالات بھی اِسی محکمہ سے متعلق ہوئے مگرنتیجہ کیا نِکلا صفر حکمرانوں کے کاغذوں میں سب اچھا ہے کی رپورٹ ہے۔ پی آئی اے مسلسل خسارے میں جارہا ہے مگرکوئی شُنید نہیں وہی اقربا پروری اور چاپلوسی کا دورہ دورہ۔یہاں تک کہ ملکی سلامتی دائو پر لگ چکی ہے مگر حکمرانوں کے رویے دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور ہر طرف امن ہی امن ہو اور ترقی اور خوشحالی کے شادیانے بج رہے ہوں۔ عوام کا پُر سان حال نہ پہلے کوئی تھا اور نہ ہی اب ہے ۔وہی بدحالی وہی معاشی مسائل جن میں بتدریج کئی سو گنا اضافہ ہوگیا ہے اور تاحال جاری ہے ۔نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ 58% لوگ خطِ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کررہے ہیں40% لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں مستقبل کے معماروں کی کوئی فکر نہیں تعلیم عام کرنے کا شورمچایا ہوا ہے مگر 2کروڑ بچے سکول نہیں جاتے کوئی لائحہ عمل یا منصوبہ بندی نہیں بلوچستان قدرتی وسائل اور معدنی دولت سے مالا مال ہے مگر پاکستان کا سب سے بدحال اور پسماندہ صوبہ ہے کون ہے اِن سب کا ذمہ دار؟ملک تاریخی بدحالی کی دلدل میں دن بدن دھنستا چلا جارہا ہے۔
خدارا ہوش کے ناخن لو اور سوچو کے یہ ملک ہے تو سب کچھ ہے اور اپنی آستینوں میں چُھپے سانپوں کو پہچانوںاورخوشامدیوں اور چاپلوسوں کے خول سے نکل کر اِس ملک کے بارے میں سنجیدہ ہوجائو وگرنہ یاد رکھو ” زوال اُن کا مقدر بن جاتی ہے جو خواب ِ غفلت سے بیدار نہ ہوں۔