پاکستان میں عام انتخابات تو جیسے تیسے منعقد ہو گئے لیکن دھاندلی کی آہ و فغاں ابھی تک جاری ہے۔ انتقال اقتدار سے قبل الیکشن کمیشن اور ریٹرنگ افسرز کے کئی فیصلوں پر پاکستان تحریک انصاف بھی بلبلا اٹھی اور چیف جسٹس آف پاکستان سے مداخلت کرنے کا مطالبہ کردیا۔ ابھی ترجمان پاکستان تحریک انصاف کے بیان کی بازگشت بھی ختم نہ ہوئی تھی کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی ایک مقدمے کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ دیا کہ انہوں نے الیکشن کے دن تین مرتبہ الیکشن کمشنر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا ، پتہ نہیں وہ سو رہے تھے ۔اسی طرح انہوں نے یہ ریمارکس بھی دے دیئے کہ” اچھا بھلا انتخابی عمل چل رہا تھا ، الیکشن کمیشن نے مہربانی فرما دی ”۔
انتقا ل اقتدار کے مرحلے پر کئی مشروط نوٹیفیکشن جاری ہوئے۔ جس میں عمران خان کی کامیابی کو بھی تین حلقوں سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر الیکشن کمیشن کے فیصلے سے مشروط کردیا گیا ۔ این اے 131میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سعد رفیق کی درخواست پر ہائی کورٹ نے دوبارہ گنتی کا حکم دیا تھا ۔ جیسے رکوانے کے لئے عمران خان کی جانب سے متعدد کوشش کی گئی لیکن ہائی کورٹ کے حکم پر ووٹ کی گنتی کا عمل شروع کیا گیا ۔ عمران خان کے نمائندے نے آخری لمحوں میں بھی کوشش کی کہ گنتی کا عمل رک جائے۔ بروز منگل ریٹرنگ آفسر نے گنتی کے مرحلے کو روک کر اگلے دن کے لئے ملتوی کردیا اور پھر بروز بدھ سپریم کورٹ کے حکم پر این اے 131میں جاری گنتی کے ادھورے عمل کو روک دیا گیا۔تھیلے دبارہ سیل کرکے فوج کی نگرانی میں واپس ریٹرنگ آفسر کے دفتر سے واپس منتقل کردیئے گئے۔
ہار و جیت سے قطع نظریہ عمل بڑا حیران کن ہے کیونکہ عمران خان نے جب اپنی پہلی وکٹری اسپیچ کی تھی تو اس میں انہوں نے ملک بھر میں کسی بھی حلقے کو دوبارہ کھولنے کے لئے کسی قسم کا اعتراض نہ اٹھانے کا واضح طور پر اعلان کیا تھا۔عمران خان کی اس وکٹری اسپیج کو عوام نے بڑا مثبت لیا اور ان کے تبد یل ہوتے لہجے اور نئے عزم کے اظہار کو بڑا پسند کیا تھا۔ لیکن عوام یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمران خان زیادہ تر اپنے بیانات پر قائم نہیں رہ پاتے اور کوئی نہ کوئی توجہہ تلاش کرلیتے ہیں ۔عمران خان نے متنازعہ حلقے دوبارہ کھولنے کیلئے مخالف امیدوار کے ساتھ مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا تو ان کااخلاقی فرض بنتا تھا کہ وہ اپنے وکیل کے ذریعے حلقوں میں دوبارہ گنتی کے جمہوری عمل کو روکنے کی کوشش نہ کرتے ۔ یہاں تک کہ جب گنتی کا عمل جاری تھا اور ایک دن کا وقفہ ریٹرنگ افسر کی جانب سے لے لیا گیا تو جاری عمل کو دوبارہ رکوانا ظاہر کرتا ہے کہ عمران خان اپنے وکٹری اسپیج میں کئے جانے والے کئی دعووں میں سے ایک دعوے میں ناکام ہوگئے ہیں اور اس عمل سے ان کی پوری مثبت تقریر کے اچھے تاثر کو نقصان پہنچا ہے۔
انتخابی عمل میں امیدوارو ں کی جانب سے اپنی ہار پر تحفظات کا اظہار ایک عام رویہ ہے۔ الیکشن کمیشن میں اس کے لئے قوانین موجود ہیں ۔ اسی قوانین کے تحت کئی امیدوار انصاف کے حصول اور خود کو مطمئن کرنے کے لئے قانون کا سہارا لے رہے ہیں ۔ ماورا قانون ایسا کوئی عمل نہیں ہورہا۔ کیونکہ ایک جانب جہاں پاکستان تحریک انصاف کے مخالفین الیکشن کمیشن یا عدلیہ جارہے ہیں تو دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے وہ امیدوار بھی انہی اداروں کے پاس جا رہے ہیں جہاں سے وہ انصاف کی توقع کرتے ہیں اور اپنے تحفظات دور کرنا چاہتے ہیں۔ اب اس قانونی عمل پر عمران خان کو اپنی ذات کو مثال بناتے ہوئے اُن حلقوں پر اعتراض رکوانے کی حوصلہ شکنی کرانی چاہیے تھی جس پر ان کے سیاسی مخالفین قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیکن ان کی جانب سے حوصلہ افزائی نے انتخابی عمل کے شفاف ہونے پر سوالیہ نشان کو مزید گہرا کردیا ہے۔
نمبر گیم کے لئے پاکستان تحریک انصاف نے جس روایت کو فروغ دیا ماضی میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ کئی جماعتوں کی مشروط حمایت کے ساتھ ایک کمزور حکومت لیکر عمران خان کے لئے اپنے تمام وعدوں کی تکمیل ایک دشوار گذار مرحلہ ہے۔اتحادیوں کے مزید مطالبات وقت کے ساتھ ساتھ ابھر کر سامنے آتے ہیں اور حکمران جماعت کو اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے ان کی شرائط کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ ذاتی طور پر الیکڑونک میڈیا کے کردار پر تحفظات ہیں کہ جب سے نمبر گیم بنانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے غیر محسوس طور پر پہلے ہی عمران خان کو وزیر اعظم کے طور پر دکھانے کا سلسلہ شروع کردیا گیاتھا۔ حالانکہ اُس وقت تک پاکستان تحریک انصاف کے پاس ایسی کوئی سادہ اکثریت نہیں تھی جس کے بل پر وہ اکیلے ہی حکومت سازی کرلیتی۔ لیکن الیکڑونک میڈیا نے ایک ایسا ماحول بنایا جس سے ایسا ظاہر ہوا کہ نمبر گیم میں کامیابی کے لئے غیر محسوس انداز میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنانے کے لئے ذہن سازی منصوبہ بندی کے تحت کی جا رہی ہو۔
اب دھاندلی یا مخالف امیدواروں کے انٹرویوز اور ان کے بیانات و تحفظات کو بعض چینلز نے ازخود سنسرکرنا شروع کردیاہے۔ جس سے عام تاثر دیا جارہا ہے کہ ریاست کا کوئی ادارہ ان انٹرویوز و بیانات کو سنسر کروارہا ہے۔یہ بہت منفی تاثر ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض میڈیا ہائوسز کی جانب سے اپنے ہی اینکرز کے پروگراموں کو روکنا ، ادارے کے فروعی مالی مفادات بھی ہوسکتے ہیں ۔ تاکہ آنے والی حکومت سے انہیں اشتہارات کی صورت میں مراعات ملتی رہیں ۔ کیونکہ ایک جانب اینکر اپنے ادارے کی دوہری پالیسی پر احتجاج کرتا ہے تو اس کا کالم بھی اپنے ہی ادارے کے اخبار میں شائع ہوتا ہے۔ جس میں وہ شکوے شکایات کرتا نظر آتا ہے۔ اگر سنسر ہے تو اس کا اطلاق کالم پر کیوں نہیں کیا ۔ہم دیکھ چکے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر بعض الیکٹرونک چینلز میں سیاسی و حکومتی شخصیات کو لیکر جس طرح تضیحک کی جاتی رہی تھی بلکہ آج بھی کئی پروگراموں میں ‘ بھانڈ’ و’ میراثی’ کی شکل میں حکومتی و سیاسی شخصیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کیا یہاں کوئی سنسر شپ نہیں ہے۔رات گئے چلنے والے بعض پروگراموں میں ‘ بھانڈ’ کو” جگت” کے نام پر جو اسکرپٹ دیا جاتا ہے وہ انتہائی غیر مہذب اور غیر اخلاقی ہوتا ہے جیسے کسی فیملی کے ساتھ بھی بیٹھ کر دیکھا نہیں جا سکتا۔بعض میڈیا ہاوسز کے اس دوہرے معیار پر سوائے سر دھننے کے کچھ اور نہیں کیا جاسکتا۔
ہمارے بعض الیکڑونک چینل نے مخصوص سوچ کے ساتھ ایک نیا وتیرہ بھی اپنالیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سے متعلق عوام میں توقعات و خوابوں کے پورے ہونے کا اتنا اونچا پہاڑ کھڑا کردیا ہے جس کے گر جانے سے خدانخوستہ قوم کی رہی سہی امیدیں بھی خاک میں مل جائیں گی۔ نا امیدی کے اس سونامی سے مایوس عوام کا شدید احتجاج ریاست کے لئے اتنے دشوار مسائل کھڑا کرسکتا ہے کہ اس کو سنبھالنا کسی بھی ادارے کی طاقت سے باہر ہوگا ۔ ہمیں یہ سمجھنا و سمجھاناچاہیے کہ پاکستان تحریک انصاف ایک کمزور ترین حکومت ہوگی ۔ پاکستان تحریک انصاف کو اپنی سادہ اکثریت کے حصول کے لئے اپنی کئی نظریاتی اسٹینڈ سے ہٹ کر چھوٹی جماعتوں سے اتحاد کرنا پڑا ہے۔
پی ٹی آئی سادہ اکثریت اور مضبوط اپوزیشن کے مقابل ہونے کے سبب قانون سازی کے مراحل میں شدید پریشانیوں کا شکار رہے گی۔ پی ٹی آئی حکومت سازی کے مرحلے میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ کسی نئے عمرانی معاہدے سے گریزاں ہے تو پارلیمنٹ میں بار بار ان ہی جماعتوں پر تکیہ کرنا ہوگا جن سے وہ راہ فرار اختیار کررہے ہیں۔میڈیا ہاوسز اور خود پاکستان تحریک انصاف کو تحمل کی راہ اپنانی ہوگی۔ پل چھپکتے ہی سارے مسائل حل نہیں ہوسکتے ۔ ابھی تو کئی ایسے مراحل ہیں جنہیں طے کرنا باقی ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی طاقت جیسے ہم ہمیشہ نظر انداز کرتے ہیں وہ بیورو کریٹ ہیں ۔ جو کسی بھی سیاسی شخصیت و جماعت کو خاطر میں نہیں لاتے۔ انہی کوحکومت سنبھال لے تو یہی سب سے بڑا ”جہاد ”ہے۔ مملکت میں تمام خرابیوں کی مضبوط جڑ بیورو کریٹ ہیں۔ عمران خان نے ابھی جلتے انگاروں پر قدم نہیں رکھا ہے اس لئے انہیں تپش کا اندازہ نہیں ہے ۔ لیکن باحیثیت پاکستانی ہم سب کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کے لئے جو بھی سچے دل کے ساتھ کوشش کرتا ہے ہم سب کو اس کا اخلاقی ساتھ دینا چاہیے۔قوم کو جھوٹے وعدوں اور بڑے خواب دکھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ بڑی امیدیں جب ٹوٹتی ہیں سب کچھ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ خواب و سیراب کے فرق کو سمجھنا و سمجھنا ہو گا۔