تحریک انصاف کو اقتدار سنبھالے تقریباً دو ماہ ہو گئے ہیں ان دو ماہ میں حکومت گرتی ہوئی ملکی معشیت کو سنبھالنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ معشیت کو سنبھالنے کے لیے آئی ایم ایف کے دروازے پر بھی دستک دے دی ہے اور اپنے قریبی ہمسایہ ممالک دوستوں سے بھی مدد کی درخواست بھی کی جارہی ہے۔مہنگائی کا جن ہے کہ بوتل میں بند ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ گیس، بجلی ، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوچکا ہے جس کی بنا پر کھانے پینے کی اشیا ء اور ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں بھی اضافہ کر دیاہے۔ ان سب چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ سے مہنگائی کا سارا بوجھ براہ راست غریب عوام پر پڑا ہے۔
وزیرِاعظم عمران خان نے قوم سے پہلے بھی خطاب کیا تھااور اس خطاب میں عوام سے دعوے بھی کیے تھے مگر ان دعووں پر ابھی تک مکمل عمل درآمد نہیں ہوا ۔ اب ایک بار پھر اپنی قوم کو اعتماد میں لینے کے لیے خطاب کرنا پڑا۔قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا ہے کہ ہم پر اقتدار سنبھالتے ہی قرضوں کا بوجھ پڑ گیا جس کا ہم پر بہت دباؤ تھا، قرضوں کا سارا بوجھ عوام پر مہنگائی کے ذریعے پڑ رہا ہے، ہم نے قرضوں کی قسطیں ادا کرنا ہیں، اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے ہم کوشش کر رہے تھے کہ دوست ممالک سے قرض لیں۔ قوم کو خوشخبری سنانا چاہتا ہوں کہ سعودی عرب کی جانب سے ہمیں خصوصی پیکج ملنے کے بعد ہمارے اوپر سے قرضوں کا پریشر ہٹ گیا ہے، انشا اللہ آئندہ چند دنوں میں قوم کو مزید خوشخبریاں سناؤں گا۔وزیرِاعظم نے کہا کہ اگر سعودی عرب سے یہ پیکج نہ ملتا تو ہمیں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس جانا پڑتا، آئی ایم ایف سے زیادہ قرض لیتے تو اس کا بوجھ عوام پر ہوتا۔خانصاحب سے پوچھا جائے کہ ان سب باتوں کوآپ کو پہلے سے علم نہیں تھا کہ ملک گروی رکھا ہے یا خزانہ خالی ہے ؟جلسوں میں تو آپ نے بڑے بلند و بانگ دعوے کیے تھے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں سرمایہ کاروں کے لیے سہولیات پیدا کریں گے۔ ایکسپوٹرز کی مدد کر رہے ہیں، ہم ایکسپورٹ بڑھائیں گے، ایکسپوٹرز کے لیے ونڈ ونڈو آپریشن ہوگا۔ہمیں تنخواہ دار طبقے کی زیادہ فکر ہے، ہم انشا اللہ اپنی عوام پر زیاہ بوجھ نہیں ڈالیں گے، مجھے عوام کی مشکلات کا احساس ہے۔ ملک برے وقتوں سے گزرتے ہیں، عوام مت گھبرائیں۔ وزیرِاعظم نے اپوزیشن پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تو ہم سابق حکومتوں کے نقصانات کو پورا کر رہے ہیں۔ دونوں جماعتوں نے دس سال ملک میں حکمرانی کی اور عوام کو بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا۔ اپوزیشن کی کوشش ہے کہ ہم پر دباؤ ڈال کر ہم سے این آر او لے لیں لیکن میں ان پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ سارے کان کھول کر سن لیں ایسا کبھی نہیں ہوگا، میں کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا، اپوزیشن جو مرضی کر لے احتساب ہو کر رہے گا۔ عوام سے وعدہ کیا تھا کہ کرپٹ لوگوں کو جیل میں ڈالوں گا، جو مرضی کر لو، ملک میں احتساب کرنا ہے۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ پاکستان میں کرپشن نیچے آ رہی ہے، ہم منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
عمران خان نے اپوزیشن پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کو پتا ہے کہ یہ کیا کر کے گئے ہیںِ، ان کو پتا ہے جب آڈٹ ہو گا تو ان کی کرپشن سامنے آئے گی، ان کی صرف ایک کوشش ہے کہ ان کو این آر او مل جائے۔وزیرِاعظم نے کہا کہ کرپشن ختم کیے بغیر ملک کا کوئی مستقبل نہیں، کبھی فالودے والے کے اکاؤنٹ سے پیسے نکل رہے ہیں، یہ پیسہ چوری ہو رہا ہے، یہی پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیجا جاتا ہے، ڈالر چوری کر کے بیرون ملک لے جاتے ہیں۔ بظاہروزیراعظم کے خطاب میں کوئی ایسی خاص بات نظر نہیں آئی جس سے عوام کو حوصلہ ہوتا۔ روایتی وزیراعظموں کی طرح اپنی رام کہانی سنائی اورگذشتہ حکومت پر سارا مدعا ڈال کر عوام کو سنہرے خواب دکھانے کی کوشش کی۔ موجودہ حکومت اگر واقعی کرپشن ختم کرنے کے حق میں ہے تو پانامہ کیس میں نوازشریف کے علاوہ جو لوگ شامل تھے ان کا کیا بنا؟ حسین حقانی کا کیا بنا؟آپ کی اپنی پارٹی کے کئی افراد پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں ان کا احتساب کون کرے گا؟ خانصاحب یہ حقیقت کے پاکستان کو کرپشن دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے مگر جب مخالف برائے مخالف احتساب ہوگا توہر ذی شعور انسان کچھ نہ کچھ سوچنے پر مجبور ہوگا۔ پھرایسا وقت آئے گا کہ اقتدار میں آنے والا ہر کوئی اپنے مخالفین پر احتساب کے نام پر حاوی ہوگا۔ پچھلے دنوں ناجائز تجاوزات کے نام پر تقریباً پورے پنجاب میں توڑ پھوڑ کی گئی ۔ سوشل میڈیا پر بہت کچھ دکھایا گیا ، اوقاف کی اراضی کو ناجائز قابضین سے چھڑایا گیایہ ایک اچھا فیصلہ ہے آپ کا مگر اس میں ابھی تک بہت سے نام ایسے ہیں جن کو چھوا تک نہیں۔ یہی نہیں اوقاف کی زمینوں کو بہت سے لوگوں نے سونے کو پیتل اور پیتل کو سونا بنا کر اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔
تبدیلی کے نام پر قائم ہونے والی اس حکومت میں ابھی تک کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آئی ۔ کہنے کوکہا جارہا ہے کہ ستر(70)سال کا گند صاف کررہے ہیں مگر گند صاف کرنے کی بات ہے تواس میں صرف چیدہ چیدہ لوگ نظر آرہے ہیں۔ اگر آپ کو احتساب ہی کرنا ہے تو سب سے پہلے 1948 سے شروع ہواور 2018تک سب کا کچا چٹھا کھول کے عوام کے سامنے رکھوتاکہ سب کی اصلیت عوام کو پتہ چل سکے۔ آپ کی کابینہ میں شامل ان وزرا ء کا ریکارڈ عوام کے سامنے لاؤ جنہوں نے آپ کی جماعت میں شامل ہونے سے پہلے دوسری جماعتوں میں رہتے ہوئے وزارت کے مزے لوٹے۔
خانصاحب کی حکومت میں اس وقت عوام میں بے چینی کی کیفیت پائی جارہی ہے۔ جس کارزلٹ حالیہ ضمنی الیکشن میں دیکھ لیا کہ جن حلقو ں میں تحریک انصاف جیتی تھی وہ سیٹیں بھی ہار گئی جبکہ اکثرضمنی الیکشن میں حکمران جماعت واضح اکثریت سے جیتتی ہے۔ بے شک آپ کی حکومت کو آئے چند ماہ ہوئے ہیں مگر عوام آپ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرکے بیٹھی تھی مگر آپ کی حکومت نے چند ماہ میں مایوس کردیا۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدام کرے جس سے عوام کو ریلیف ملے ۔عوام پریشان ہے کہ یہ مہنگائی کہا جا کر دم لے گی اگر سب کچھ ہماری( عوا م) جیب سے ہونا ہے تو پھر لوگوں کو تبدیلی لانا کا سنہری خواب کیوں دکھایا؟؟؟؟