تحریر : مرزا روحیل بیگ ذی الحج کا مہینہ آنے سے قبل ہی عید قربان اور قربانی کا غلغلہ مچ جاتا ہے۔ کروڑوں مسلمان ہر سال ذوق و شوق کے ساتھ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ تاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی رضائے الہی کے لیئے پیش کی گئی عظیم قربانی کی یاد ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے۔ آج سے کئی ہزار سال قبل اللہ رب العزت کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک خواب دیکھا جس میں حکم تھا ” اے میرے خلیل! میرے لیئے قربانی پیش کرو۔” نبی علیہ السلام کا خواب وحی الہی ہوتا ہے۔ سو آپ علیہ السلام نے سو اونٹ اپنے رب کی راہ میں قربان کر دیئے۔ دوسری رات پھر وہی خواب دیکھا۔ صبح اٹھ کر آپ علیہ السلام نے پھر سو اونٹ راہ خدا میں قربان کر دیئے۔
تیسری رات پھر وہی خواب آیا۔ ” اے میرے خلیل میرے لیئے وہ چیز قربان کرو جو تمہیں سب سے زیادہ پیاری ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بیدار ہوئے تو سمجھ گئے کہ میرا رب مجھ سے میرے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی قربانی مانگ رہا ہے۔ آپ علیہ السلام نے اپنی بیوی حضرت حاجرہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا ” کہ میرے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو تیار کر دو میں نے اسے ایک دعوت میں لے کر جانا ہے۔ حضرت حاجرہ رضی اللہ عنہا نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو نہلا دھلا کر اور خوبصورت لباس پہنا کر تیار کر دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک تیز دھار چھری اور رسی لی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لیکر دور ایک جنگل کی طرف نکل پڑے۔ دوسری طرف شیطان نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو حکم خداوندی کی بجا آوری سے روکنے کے لیئے حضرت حاجرہ رضی اللہ عنہا کو پوری حقیقت سے آگاہ کیا۔ حضرت حاجرہ رضی اللہ عنہا نے سن کر فرمایا ” کہ اگر اللہ کا یہی حکم ہے تو ایک اسماعیل علیہ السلام کیا ہزاروں اسماعیل علیہ السلام بھی ہوں تو اللہ کی راہ میں قربان ہونے کے لیئے حاضر ہیں۔
پھر شیطان حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاس پہنچا اور انہیں پوری حقیقت سے آگاہ کیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا ” اگر اللہ کی یہی منشا ہے تو میں حاضر ہوں۔ اے مردود تو شیطان ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے لاحول پڑھی اور اسے کنکریاں ماریں۔ پھر شیطان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچا اور انہیں بھی ورغلانے کی کوشش کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی لاحول پڑھی اور شیطان کو کنکریاں ماریں۔ آج بھی حجاج کرام ان تینوں جگہوں پر کنکریاں مار کر ان کی یاد تازہ کرتے ہوئے سنت ابراہیمی ادا کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لخت جگر کو لے کر پہاڑ کے قریب پہنچے اور فرمایا ” اے میرے پیارے بیٹے میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ بتا تیری کیا مرضی ہے۔
فرماں بردار بیٹے نے جواب دیا ” ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہے آپ بلا خوف و خطر اس حکم کی تعمیل کریں۔ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو منہ کے بل لٹایا اور اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر چھری چلا دی۔ آپ علیہ السلام نے اپنی آنکھوں سے پٹی اتاری تو کیا دیکھتیہیں کہ ” مینڈھا ” ذبح ہوا پڑا ہے۔ اور پاس کھڑے حضرت اسماعیل علیہ السلام تبسم فرما رہے ہیں۔ اس وقت غیب سے ندا آئی ” اے ابراہیم علیہ السلام تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔ ہم نیکیوں کا ایسے ہی بدلہ دیتے ہیں ”۔ رب کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کو اس قدر پسند فرمایا کہ قیامت تک مسلمانوں کے لیئے قربانی کو ضروری قرار دے دیا۔ عید قربان محض جانوروں کی قربانی کی رسم نہیں بلکہ ایک اہم سبق حاصل کرنے کا ذریعہ ہے کہ حکم خداوندی پر ہمیں صرف جانور ہی نہیں بلکہ ہمیں ساری زندگی اللہ کی رضا کی خاطر اپنے مال و اسباب، تن من دھن، اولاد غرض کہ ہر اس خواہش اور حسرت کی قربانی دینی ہے جس سے ہمارا خدا ہم سے راضی ہو جائے۔
عید قربان کا حقیقی فلسفہ یہ ہے کہ اپنی خواہشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ” حکم ربی ” کے آگے من و عن سر تسلیم خم کیا جائے۔ قربانی کی حقیقت اور روح اصل میں صرف خون بہا دینا اور اور گوشت تقسیم کرنا نہیں بلکہ روح اور دل کی قربانی ہے۔ اپنی عزیز ترین چیز کو بارگاہ الہی میں پیش کرنے کا نام قربانی ہے۔ رب کے سامنے اپنے تمام جذبات، خواہشوں اور تمناؤں کو قربان کرنا ہے۔ اسی جذبہ تسلیم و رضا کی اللہ کے ہاں قدر ہے۔ آج پاکستان جس دوراہے پر کھڑا ہے ہمیں انفرادی اور اجتماعی قربانی کی سخت ضرورت ہے۔ عید قربان کا مقدس دن تقاضا کرتا ہے کہ ہم غریب، نادار، مفلس اور حق دار مسلمان بھائیوں کا خیال رکھیں۔