کراچی (جیوڈیسک) خوابوں، خوشبوؤں اور نوجوانوں کی زندہ دل شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے بچھڑے 21 برس بیت گئے لیکن ان کی خوبصورت شاعری انہیں چاہنے والوں کے درمیان آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔
نوجوانوں کی زندہ دل شاعرہ پروین شاکر 24 نومبر 1952 میں کراچی شہر میں ادبی خاندان میں آنکھ کھولی جس کی وجہ سے وہ اپنے گھر میں ہی کئی شعراء کے کلام سے روشناس ہوئیں جب کہ انہوں نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہوگئیں تاہم 9 سال بعد ہی شعبہ تدریس کو خیرباد کہتے ہوئے انہوں نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی اور ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔
خوابوں اور خوشبوؤں کی شاعرہ نے انتہائی کم عمری میں ہی شعر گوئی شروع کردی تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی منفرد شاعری کی پہلی کتاب ’’خوشبو‘‘ سے اندرون و بیرون ملک بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور آدم جی ایوارڈ اپنے نام کیا جب کہ ان کے کئی شعری مجموعے ’’خود کلامی‘‘،’’ صد برگ‘‘،’’ انکار‘‘،’’ ماہ تمام‘‘ اور’’ کف آئینہ‘‘ کو بے پناہ پذیرائی حاصل ہے تاہم اردو لہجے کی منفرد شاعرہ ہونے کی وجہ سے پروین شاکر کو بہت ہی کم عرصے میں شہرت حاصل ہو گئی۔
پروین شاکرکی پوری شاعری ان کے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار ہے جو پوری ایک نسل کی نمائندگی کرتی ہے کیونکہ ان کی شاعری کا مرکزی نکتہ عورت ہے جس کے باعث ان کے کلام میں ایک نوجوان دوشیزہ کے شوخ و شنگ جذبات کا اظہارہے تو کہیں زندگی کی سختی کا اظہار بھی ملتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے شاعری میں احساس کی جو شدت ہے وہ ان کی دیگر ہم عصر شاعرات کے یہاں نظر نہیں آتی۔
اردو ادب کے منفردلہجے کی شاعرہ پروین شاکر26 دسمبر 1994 کو 42 سال کی عمر میں اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے میں چل بسیں لیکن آج بھی ان کا کلام انہیں زندہ رکھے ہوئے ہے۔