عین اُس وقت جب ڈرون حملوں کے خلاف واضح اور دو ٹوک موقف رکھنے والی جماعت تحریک انصاف صوبہ خیبر پختون خواہ میں حکومت سازی کے عمل میں مصروف تھی امریکی ڈرون نے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ سے چار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع چشمہ پر پانچ افراد کو لقمہ اجل بنا دیا امریکہ نے دعویٰ کیا کہ ہم نے اس حملے میں کالعدم تحریک طالبان کے امیر ولی الرحمٰن کو اُن کے چار ساتھیوں فخر عالم، نصیرالدین، عادل وغیرہ کو ٹارگٹ کیا نائن الیون کے خود ساختہ واقعہ کے بعد پاکستان امریکی جنگ کا فرنٹ لائن اتحادی کیا بنا کہ اس جنگ سے ابھی تک نکل نہیں پا رہا امریکی مطالبات ہیں کہ بڑھتے جا رہے ہیں اور ہم ایک ایسی بند گلی میں محصور ہوتے جا رہے ہیں کہ جس سے واپسی کا رستہ ممکن نظر نہیں آتا ان ڈرونز حملوں میں لقمہ اجل بننے والے افراد کی 80 فیصد تعداد بے گناہ شہریوں کی ہے جس کی نشاندہی ایمنیسٹی انٹر نیشنل نے بھی کی ہے یہی جب بے گناہ شہری لقمہ اجل بنتے ہیں تو باقی بچ جانے والے افراد کے اندر جذبہ انتقام جنم لیتا ہے۔
وہ فرد یا تو خودکش بمبار بنتا ہے اور یا دہشت گرد ایسے افراد کو غیر ملکی ملک دشمن ایجنسیاں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہیں اور وہ اپنے ہی ملک کی سالمیت کی بقا کی جنگ لڑنے والے عسکری اداروں پر بھی حملے کرتے ہیں 15 دسمبر 2012 کو پشاور ایئر پورٹ پر حملہ، اس سے قبل اکتوبر 2009 میں راولپنڈی جی ایچ کیو، نومبر 2010 میں سی آئی ڈی آفس، مئی 2011 میں کراچی نیول بیس کو ہدف بنایا گیا لیکن مشرف حکومت سے لیکر موجودہ حکومت تک کسی حکومت میں اس دہشت گردی کا کھوج لگانے کے حوالے سے کوئی فکر مندی نظر نہیں آئی سب نے تجوریاں بھریں اور چلتے بنے البتہ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کا خون ایسے واقعات پر اک عرصہ سے کھول رہا ہے جذبہ حب الوطنی اور اپنے ہم وطنوں کا ناحق بہتا ہو لہو کسی بھی محب وطن پاکستانی کو چین سے سونے نہیں دیتا عمران کو بھی اندر کے درد نے اُٹھنے پر مجبور کیا۔
7 اکتوبر 2012 کو تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے شمالی علاقہ جات میں ہونے والے ڈرون حملوں پر مارچ کا اعلان کرکے عالمی دنیا کو ورطہ ئِ حیرت میں ڈال دیا عمران کا ساتھ دینے کیلئے دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندے ساتھ تھے اور خاص طور پر عمران نے عالمی میڈیا کو اس امریکی جارحیت کے حقائق سے آگاہ کرنے کیلئے مدعو کیا عمران کا ساتھ لاکھوں افراد نے دیا جس سے ڈرون کے خلاف احتجاج عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا سہرا بھی عمران خان کے سر جاتا ہے پاکستان گزشتہ دس سالوں سے حالت جنگ میں ہے اور شمالی علاقہ جات میں اپنی یہ غیر اعلانیہ جنگ امریکہ نے جدید ترین ٹیکنالوجی ڈرون کے ذریعے مسلط کر رکھی ہے ان حملوں کو امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے کی شاخ (Specail Activities Division) سر انجام دے رہا تھا مگر اب یہ کنٹرول پینٹا گون کے پاس چلا گیا ہے لفظ ڈرون کا لفظی معنی شہد کی مکھی (مادہ )ہے جو کہ مکھی کی طرح شور(Buzz) کرنے والا بغیر پائلٹ کا جہاز ہوتا ہے جس کا کنٹرول زمین پر ہو تا ہے باالفاظ دیگر اس کا پائلٹ زمین پر بیٹھا ہوتا ہے۔
اس کے پائلٹ کو Combat System Officer کہا جاتا ہے جو ریموٹ کنٹرول یا کمپیوٹر کے ذریعے کارروائی کر تا ہے یہ اس صدی کا جدید ترین اسلحہ ہے اور امریکہ کے پاس یہ ہزاروں کی تعداد میں موجود ہے ڈرون کو اسرائیل کی فضائیہ کی چیف ڈیزائنر ابراہم کیرم نے 1990 میں بنایا تھا بعد میں امریکہ نے 1995 میں کیرم سے خرید کر امریکی دفاع کیلئے اسے استعمال کیا اس کا بنیادی مقصد جاسوسی کرنا ہے اس میں جاسوسی کیلئے جدید ترین اور اعلیٰ قسم کے کیمرے نصب ہوتے ہیں عام طور پر یہ 27 فٹ لمبا اور 6.9 فٹ اونچا جبکہ 48.7 فٹ چوڑا ہوتا ہے یہ 84 سے لیکر 135 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے جبکہ 445 میل تک مار کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ 25000 فٹ کی بلندی پر پرواز کرتا ہے اس پر دو لیزر گائڈڈ میزائل نصب ہو سکتے ہیں ڈرون کو اُن علاقوں مین استعمال کیا جاتا ہے جو پائلٹ والے طیاروں کیلئے خطر ناک ہوتے ہیں۔
Osama Bin Laden
امریکہ نے سب سے پہلا ڈرون سٹیشن ازبکستان میں اسامہ بن لادن کی جا سوسی کیلئے بنایا اور اب تک سینکڑوں کی تعداد میں یہ ڈرون عراق، افغانستان، سربیا، بوسنیا اور یمن کے خلاف امریکہ استعمال کر چکا ہے پاکستان کی طرح یقینا مذکورہ ممالک میں بھی معصوم اور بے گناہ افراد لقمہ اجل بنے ہوں گے امریکہ کے سابق صدر بش نے 2004 میں پاکستان میں ڈروں حملوں کی اجازت دی اور بش کے دور میں ان حملوں کی تعداد 45 تھی وطن عزیز کے 100 فیصد عوام ان انسانیت کش ڈرون حملوں پر سراپا احتجاج اور مخالف ہیں امریکہ کی اس کھلے عام دہشت گردی پر این جی اوز اور ہیومن رائٹس کے اداریم جرموں کی طرح خاموش ہیں حتیٰ کہ بعض قومی ادارے اور میڈیا والے بھی دلالی کا ثبوت دیکر حقیقت کو چھپاتے ہیں انٹر نیشنل میڈیا کے مطابق پاکستانی ادارے اس کی پر زور تردید کرتے ہیں لیکن دوسری طرف معلومات دینے کے علاوہ 21 اپریل 2011 تک شمسی ایئر بیس سے ان حملوں کو جائز قرار دیا گیا اور جب سلالہ ایئر بیس پر حملہ ہوا تو تعلقات میں سرد مہری کی وجہ سے شمسی ایئر بیس کو 150 امریکیوں سے خالی کرا لیا گیا۔
4 اکتوبر 2008 کی واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ حملے امریکہ اور پاکستان کے درمیان ایک خفیہ معاہدے کے تحت جاری ہیں ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ دہشت گردی کے نام پر ہونے والے ڈرون حملے ہماری خود مختاری اور سالمیت پر حملے ہیں اور امریکہ کی یہ جنگ 45 ہزار بے گناہ پاکستانیوں کا خون پی چکی ہے ہمارے حکمران ھب الوطنی کا قتل کر کے امریکی ڈگڈگی پر ناچ رہے ہیں 80 ارب ڈالر کا نقصان ہماری معیشت کو ہوا نومبر 2011 میں نیٹو فورسز نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کرکے ہمارے 24 عسکری نوجوان شہید کر ڈالے اور اس حملے پر امریکہ کو رتی برابر ملال بہ ہوا ہم اُس واقعہ پر نیٹو سپلائی معطل کر دی کہ ہمارا ازلی آقا ہم سے معذرت کرے لیکن اُس کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی 15 جون 2012 کو افغانستان کے مستقبل کے بارے میں کابل میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے موقع پر سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا تھا کہ افغانستان میں عسکریت پسندی سے نمٹنے کیلئے بعض حکومتیں خوفناک اقدامات کر رہی ہیں اِسی طرح شکاگو میں جو کانفرنس ہوئی اُس کے اختتام پر ڈرون حملوں شدت آگئی۔
4 نومبر 2012 کو سارک سپیکرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ دہشت گردی کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اُٹھایا لیکن خون ناحق کے کاروباری بھیڑیوں کو دوسروں کے آنسو، فریاد اور زخم کب یاد رہتے ہیں اگر رہتا ہے تو صرف اپنا اقتدار، عہدہ، حرام کی کمائی سے لیس بنک بیلنس، اور لمبی چوڑی جائداد یاد رہتی ہے کیا اِس ظلم پر نو منتخب وزیر اعظم قصر ِسفید سے اپنا موقف منوالیں گے کیا ایک بے نام، گمنام معاہدے کی پاسداری پر سارے قبائلی پاکستانیوں کا صفایا قبول ہے کیا آنے والی حکومت ڈرون حملوں کے سامنے بند باندھ سکے گی ؟ اگر ایسا نہ ہوا تو الزام امریکہ پر نہیں ہمارے اپنے حکمرانوں پر آئے گا کیونکہ طالبان نے مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی ممکنہ معاہدے پر اپنے تحفظات کا اظہار ولی الرحمان کی ہلاکت کے بعد کر دیا ہے اگر ایسا نہ ہوا تو مسلم لیگ ن کی حکومت کیلئے مشکلات میں اضافہ ہو گا کیونکہ 7 جولائی 2012 کو جب میاں محمد نواز شریف فرینکفرٹ جرمنی پہنچے تھے تو اُنہوں نے وہاں یہ واضح کیا تھا اور اُن کا یہ موقف آن دی ریکارڈ ہے کہ ”زرداری حکومت اور ڈرون حملے ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ معصوم پاکستانیوں کا خون بہانا بند کیا جائے دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے موقف کا کہاں تک پاس کرتے ہیں جبکہ سرحد سے نو منتخب وزیر اعلیٰ پاکستان تحریک انصاف پرویز خٹک نے بھی اپنے رد عمل میں واضح کیا ہے کہ اگر وفاق میں ہماری حکومت ہوتی تو امریکہ یہ جرات نہ کرتا۔