ریلوے اسٹیشن ہو یا لاری اڈہ، ٹیکسی سٹینڈ ہو یا ٹریفک کا اشارہ، بازار ہو یا کوئی اور پبلک پلیس، یہاں ہمیں جو چیز مشترک نظر آتی ہے، وہ ہیں بھکاری۔ ایک بھکاری کو چور اچکا، ڈکیت، شرابی اور زانی بھی بری نظر سے دیکھتا ہے۔ ہر کوئی اسے دھتکارتا نظر آتا ہے۔ کوئی عادتاً بھیک مانگ رہا ہے یا باامر مجبوری، اسلام میں دونوں صورتوں میں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور محنت سے کمانے کی تاکید کی گئی ہے۔
دوسروں کے قرضوں (جنہیں بعض اوقات امداد کا نام بھی دیا جاتا ہے) پر چلنے والے ممالک کا حال بھی گلی محلے کے ان بھکاریوں سے مختلف نہیں۔ بدقسمتی سے ارض پاک بھی اسی مسئلے کا شکار رہا ہے۔ اوائل سے ہی پاکستان کی ڈوربد دیانت اور نا اہل حکمرانوں کے ہاتھوں میں رہی ہے جو اپنی معیشت مضبوط بنانے اور اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کی بجائے قرض پر قرض لیتے رہے اور عوام کے نام پر لیا گیا قرض اپنے اللے تللوں میں اڑاتے رہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہر پیدا ہونے والا پاکستانی بچہ کئی ہزار کا مقروض ہوتا ہے۔ جس طرح گلی محلوں کے فقیروں کو کوئی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا، اسی طرح عالمی برادری میں غیر ملکی قرضوں پر چلنے والے ملک کی کوئی عزت نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ جس کا جب جی چاہتا ہے پاکستان کی سالمیت کو چیلنج کر دیتا ہے۔
کبھی ایبٹ آباد آپریشن کے ڈرامے کی صورت میں تو کبھی ڈرون حملوں کی صورت میں۔ کبھی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر کے تو کبھی ایل او سی اور سلالہ پر پاک فوج کے جوانوں کو شہید کر کے۔ کبھی ملکی پالیسیوں میں بلاجوازمداخلت کر کے تو کبھی بے بنیاد الزام تراشیاں کر کے۔ الغرض ہر کوئی اس کو رسوا کرنے اور عالمی برادری میں تنہا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔
4دسمبر کو بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے ایک لفظی میزائل پاکستان پر داغا جس میں موصوف نے فرمایا کہ ”پاکستان بھارت سے کبھی جنگ نہیں جیت سکتا، کم از کم ان کی زندگی میں تو نہیں۔” ان کے اس بیان بعض تجزیہ کار بچگانہ حرکت قرار دے رہے ہیں تو بعض اسے انتخابی مہم سے منسوب کر رہے ہیں (یاد رہے کہ بھارت میں اگلے سال عام انتخابات ہو رہے ہیں)۔ من موہن سنگھ نے تو جو کہا سو کہا۔ مگر اپنے حکمرانوں پر مجھے حیرت ہے جنہوں نے (میرے ناقص علم کے مطابق) اک مذمتی بیان تک نہیں دیا۔
Manmohan Singh
ابھی من موہن سنگھ کی بڑھک کو بمشکل چار دن گزرنے پائے تھے کہ حضرت اوباما نے بھی اک فرمان جاری کیا۔ ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق بات کرتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے کہا کہ ایران پاکستان کی طرح دھوکے سے ایٹمی ہتھیار نہیں بنا سکتا۔
ادھر سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزارائس ہفتے کو نئی دہلی میں ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران کہتی ہیں کہ پاکستان نے دہشتگردوں کے خلاف آنکھیں بند کر لی ہیں۔ دوسری طرف امریکی ایوان کی ذیلی کمیٹی برائے ایشیا اور بحرالکاہل کے سربراہ اسٹیو شابوٹ نے کہا ہے کہ ڈرون حملے اس خطے میں متبادل ذریعہ ہیں اور ان کا استعمال دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جاری رہے گا۔
امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے پاکستان کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں نیٹو کو رسد پہنچانے کے لئے بند راستے نہ کھولے گئے تو واشنگٹن میں نہ صرف اس کی حمایت برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا بلکہ اسلام آباد کو دی جانے والی بلین ڈالر ”بھیک” بھی بند کر دی جائے گی۔ مذکورہ بالا تمام بیانات سے ذلت و تضحیک آمیز رویہ کا صاف پتہ چل رہاہے۔ بھئی ظاہر ہے جس کا نمک کھایا ہو اس کا کہا تو ماننا پڑتا ہے، نہ ماننے پراس کی جھڑکیاں بھی سننی پڑتی ہیںاور اس کے لئے مشق ستم بھی بننا پڑتا ہے۔
صد افسوس کہ ہمارے ملک کا حال بھی وڈیرے کے اس غلام کی طرح ہے جو اپنی ساری عمر تو غلامی میں کاٹتا ہی ہے، اپنی نسلوں کو بھی غلامی وراثت میں دے جاتا ہے۔ محض اس لئے کہ وہ اپنی آزادی کے بارے میں سوچتا ہی نہیں۔
جب سوچے گا ہی نہیں تو عملی کوشش کیا خاک کرے گا۔ارض پاک کے مفاد پرست حکمران طبقے کے چند سو لوگ اٹھارہ کروڑ عوام اور ان کی آنے والی نسلوں کو اپنی عیاشیوں اورنا اہلی کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں مگر اب بھی ڈوبتی نیّا کا کسی کو احساس نہیں۔
اگر پنے بے پناہ قدرتی وسائل کو بروئے کا نہ لایا جائے گا اور دستیاب وسائل کو کوڑیوں کے بھائو فروخت کر دیا جائے گا توہمیں ” بھیک” دینے والے ہمارے ساتھ یہی کرتے رہیں گے جو کر رہے ہیں اور اگر مجھ پر فتویٰ نہ لگایا جائے تو مجھے کہنا ہے کہ ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے، ٹھیک ہو رہا ہے۔
Tajammal Mahmood Janjua
تحریر: تجمل محمود جنجوعہ [email protected] 0301-3920428 www.facebook.com/tajammal.janjua.5