بتایا جاتا ہے کہ کلاشنکوف، سٹنگر میزائل اور گن شپ ہیلی کاپٹر جیسے تباہ کن ہتھیاروں کے ناموں سے پاکستانی انیس سو اسی کی دہائی میں امریکہ کے ایماء پر افغانستان پر سویت یونین کے قبضے کے خلاف لڑے جانے والے جہاد کے دوران روشناس ہوئے۔عام پاکستانی دو عالمی طاقتوں کے اس ٹکراؤ سے پہلے ان لفظوں سے بالکل ناآشنا تھے۔سن دو ہزار ایک میں افغانستان پر امریکی حملے نے پاکستانیوں کو ان سے کہیں زیادہ خطرناک جدید ہتھیاروں اور بموں، ڈیزی کٹر، بنکر بسٹر، کروز میزائل، شنوک ہیلی کاپٹروں، ڈرون اور ان پر نصب ہیل فائر میزائلوں سے آشنا کر دیا۔پاکستان میں بسنے والا آج شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو ڈرون کے نام سے واقف نہ ہو۔ڈرون یا بغیر پائلٹ کے جہاز کے لیے امریکی فوج میں انگریزی زبان کا لفظ، میِل، استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لفظ کا اگر اردو میں ترجمہ کیا جائے تو اس کا مطلب نر ہو گا۔
ایک ڈرون سسٹم میں چار جہاز شامل ہوتے ہیں۔اصل میں میل مخفف ہے، میڈیم ایلٹیٹوڈ لانگ اینڈورینس، کا۔ ابتداء میں بغیر پائلٹ کے جہاز یا، پریڈیٹر، کو دشمن کے علاقے میں فضائی جاسوسی یا نگرانی کرنے کے مقصد سے بنایا گیا تھا لیکن بعد میں اس پر اے جی ایم ہیل فائر میزائل بھی نصب کر دیئے گئے۔ سن انیس سو پچانوے سے امریکی فوج کے زیر استعمال یہ ڈرون افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں سے پہلے بوسنیا، سربیا، عراق اور یمن میں بھی استعمال کیے جا چکے ہیں۔ ڈرون صرف ایک جہاز ہی نہیں بلکہ یہ ایک پورا نظام ہے۔ اس پورے نظام میں چار جہاز، ایک زمینی کنٹرول سٹیشن اور اس کو سیٹلائٹ سے منسلک کرنے والا حصہ ہوتا ہے۔ اس نظام کو چلانے کے لیے پچپن افراد کا عملہ درکار ہوتا ہے۔پینٹاگن اور سی آئی اے انیس سو اسی کی دہائی کے اوائل سے جاسوسی کے لیے ڈرون طیاروں کے تجربات کر رہے تھے۔
انیس سو نوے میں سی آئی کو ابراہم کیرم کے بنائے ہوئے ڈرون میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ ابراہم کیرم اسرائیلی فضائیہ کا چیف ڈیزائنر تھا جو بعد میں امریکہ منتقل ہو گیا۔ڈرون انیس سو نوے کی دہائی میں مختلف تجرباتی مراحل سے گزرتا رہا اور انیس سو پچانے میں پہلی مرتبہ اسے بالکان میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ڈرون کے بارے میں حقائق۔بنیادی کام: جاسوسی اور اہداف کو نشانہ بنانا۔ بنانے والے: جنرل اٹامکس ایئروناٹیکل سسٹم انکار پویٹڈ۔ انجن : روٹیکس 914 ایف چار سلنڈر۔ قوت : ایک سو پندرہ ہارس پاؤر۔پروں کا پھیلاؤ: اڑتالیس اعشاریہ سات فٹ۔ لمبائی : ستائس فٹ۔اونچائی: چھ اعشاریہ نو فٹ۔ وزن: ایک ہزار ایک سو تین پاؤنڈ۔ا ڑان کا وزن : دو ہزار دو سو پچاس پاؤنڈ۔ایندھن کی گنجائش : چھ سو پینسٹھ پاؤنڈ۔ رفتار : چوراسی میل فی گھنٹہ سے ایک سو پینتیس میل فی گھنٹہ۔ مار : چار سو پینتالیس میل۔
Afghan Soldier
پرواز کی بلندی : پچیس ہزار فٹ۔ہتھیار : دو لیزر گائڈڈ میزائل۔ افغانستان پر فوجی چڑھائی سے قبل امریکی فضائیہ ساٹھ کے قریب پریڈیٹر طیارے حاصل کر چکی تھی اور ان میں بیس مختلف کارروائیوں میں ضائع ہو گئے تھے۔ ضائع ہونے والے زیادہ تر موسمی خرابیوں کی وجہ سے تباہ ہوئے۔ گزشتہ روز چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے جاری ہونے ایک بیان میں پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ اور مطالبہ کیا گیا کہ حکومت ڈرون حملے رکوانے کے حوالے سے اپنے وعدے پورے کرے، وزیر اعظم کی جانب سے انتخابی مہم اور بعد ازاں ایوان میں کئے گئے وعدوں کے باجود اس معاملے پر اب تک کوئی قابل ذکر پیشرفت نہ ہونے پر مایوسی ہوئی، ڈرون حملوں کا براہ راست تعلق خارجہ اور دفاعی پالیسی سے ہے، اس لئے انکی روک تھام کی تمام تر ذمہ داری بھی وفاقی حکومت ہی پر عائد ہوتی ہے۔ ڈرون حملوں کے ذریعے معصوم پاکستانیوں کے قتل عام کو روکنے کیلئے وفاقی حکومت کو تعاون فراہم کرسکتے ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری ڈرون حملوں کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2:4، 1949 کے جینوا کنونشن، سول اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی کنویننٹ کے آرٹیکل 6اور قتل عام کی سزاوں کے حوالے سے 9دسمبر 1949کے کنونشن کے آرٹیکل 1 کے تحت غیر قانونی قرار دیاہے۔حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ معصوم شہریوں کے قتل عام کی روک تھام کیلئے فوری طور پر متحرک ہو کیونکہ تقریباً 3000 افراد پہلے ہی قتل کئے جا چکے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق کہ امریکی وزیر دفاع لیون کہتے ہیں کہ امریکہ 2001ء سے حالت جنگ میں ہے اس لیے پاکستان میں ڈرون حملے جاری رہیں گے، ڈرون حملوں کا مقصد ان افراد کو نشانہ بنانا ہے جنہوں نے نائن الیون کو امریکہ پر حملہ کیا اور ہزاروں افراد کو ہلاک کیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع لیون پناٹا نے یہ بات اپنے منصب سے رخصت ہوتے ہوئے پنٹاگان میں الوداعی تقریب کے بعد انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔
Pakistan
ڈرون حملوں کے بارے میں عالمی قوانین کے ماہرین کا اتفاق ہے کہ یہ حملے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں، لیکن چونکہ خود امریکہ ہی عالمی قوانین کو نافذ کرنے کی طاقت رکھتا ہے اس لیے کوئی ملک یا عالمی ادارہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر امریکہ کا احتساب کرنے کی توانائی نہیں رکھتا۔ خود امریکہ میں ڈرون کے استعمال پر اختلاف رائے موجود ہے، چونکہ ڈرون حملوں کا کوئی سیاسی، قانونی اور اخلاقی جواز موجود نہیں اس لیے امریکہ اپنی طاقت کے بل پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے۔ اس وقت امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے علاوہ یمن اور صومالیہ میں بھی ڈرون حملوں کا استعمال کررہا ہے۔ امریکی وزیر دفاع کی جانب سے ڈرون حملے جاری رکھنے کے اعلان کی اہمیت یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ نے ڈرون حملوں کے خلاف تحقیقات شروع کردی ہیں گویا امریکی وزیر دفاع نے جو ماضی میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کو صاف صاف بتادیا ہے کہ عالمی ادارہ جو چاہے تحقیق و تفتیش کرلے امریکہ اپنی مرضی کرے گا۔ ڈرون حملے امریکی، وار آن ٹیرر، کا صرف ایک حصہ ہیں اور ڈرون حملوں کے بارے میں ہی تحقیق و تفتیش کرلی جائے تو صرف اس کے نتیجے میں ہی امریکہ جنگی جرائم کا مجرم قرار پائے گا اور سابق صدر امریکہ جارج بش اور موجودہ صدر امریکہ بارک اوباما جنگی مجرم ٹھیریں گے کیونکہ ڈرون حملے امریکی صدر کی اجازت سے ہی ہوتے ہیں۔ اسی مدت کے اندر سی آئی اے کی سربراہی کے منصب پر فائز تمام افراد, امریکی فوج کے سربراہان، وزرائے دفاع سب جنگی جرائم کے مجرم ہیں جن میں خود لیون پناٹا بھی شامل ہیں جو ڈرون حملوں کی وکالت کررہے ہیں۔ یہ سارے کام، وار آن ٹیرر، کے پردے میں کیے جارہے ہیں اور اس کو جنگ قرار دیا جاتا ہے۔ جنگ دو فوجوں کے درمیان ہوتی ہے۔ امریکہ جس فوج سے اپنے آپ کو حالتِ جنگ میں کہتا ہے اس کا نام، القاعدہ، رکھا گیا ہے اور یہ آج تک ثابت نہیں ہوسکا کہ نائن الیون سمیت دہشت گردی کی وارداتوں کے اصل منصوبہ ساز کون تھے۔
امریکہ کی جانب سے اس جنگ کے اعلان کے بعد 15لاکھ افراد کا خون بہایا جاچکا ہے اور ان کی اکثریت القاعدہ کے نام سے بھی واقف نہیں ہے جبکہ خود امریکی دانشور نوم چومسکی امریکہ کو ”دہشت گرد” اور ”بدمعاش” ریاست قرار دے چکے ہیں،پاکستان سمیت تمام مسلمان ملکوں کی 70فیصد سے زائد اکثریت امریکہ کی مخالف ہے اور اسے دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی کے نام سے اسلام اور مسلمان ملکوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکہ اس جنگ میں فرنٹ لائن کے اتحادی ملک پاکستان کو دہشت گردوں کا سرپرست قرار نہ دیتا۔ افسوس یہ ہے کہ پاکستان میں امریکی عزائم کی مخالفت اور مزاحمت صرف اخبارات میں بیان شائع کروانے کیلئے چند سیاسی سماجی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کررہے ہیں۔