تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری ڈرون طیارے بغیر پائلٹ کے اڑتے اور مطلوبہ ہدف کو نشانہ بناتے ہیں جس جگہ کا انھیں ٹارگٹ دیا جائے وہیں حملہ کرتے ہیںمگر ارد گرد کی آبادی کے لوگ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے اور وہ خواہ مخواہ ہی قبروں میں پہنچ جاتے ہیں دہشت گردی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جس نے9/11کے بعد زور پکڑ لیا اگر دہشت گرد ہمارے ہاں موجود ہیں تو کیا دہشتگرد امریکی بر طانوی ودیگر ریاستوں میں موجود نہیں؟پھر وہاں ڈرون حملے کیوں نہیں ہوتے کیا اس لئے کہ وہاں زیادہ تعداد غیر مسلموں کی ہے اور ایسے حملوں سے بغیر قصور کے قتل ہونے والے بھی مسلمانوں کے علاوہ عیسائی یا دوسرے مذاہب کے لوگ ہوں گے جو کہ سامراجی کسی صورت برداشت ہی نہیں کرسکتے تو پھر کیا ڈرون حملے مسلمانوں کے قتل عام کے لیے ہی مختص ہیں۔
امریکی یہودی مظالم اور مسلمانوں سے نا انصافیوں اور ان کی بہیمانہ قتل و غارت گری پر داعش جیسی کئی تنظیمیں بن چکی ہیں اور کچھ ایسے ہی ملے جلے ناموں کے مسلح گروہ خود امریکنوں اور یہودیوں نے اسلامی ممالک میں انتشار کو قائم رکھنے کے لیے بنا رکھے ہیں ۔ڈرون حملہ سینکڑوں کلومیٹر دور سے تو کیا جاسکتا ہے مگر کئی ہزار کلو میٹر دور سے نہیں ۔ پھر یہ امر واضح ہے کہ ان کا وہ مقام جہاں سے ان کو فیڈ کرکے بھجوایا جاتا ہے وہ بھی ادھر اُدھر پاکستان کے اندر ہی موجود ہے اور یہ اجازت نامہ سابق کمانڈو ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں دیا گیا تھا اور آج تک اسے منسوخ کرنے کی جرأت سویلین حکمرانوں سے نہ ہوئی ہے ڈرون جب چاہیں حملہ آور ہوں ان کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہے اور نہ ہی کوئی سیاستدان یا گروہ مذمت کے دو بول ہی بول سکتا ہے۔
سیاستدان وہ مقتدرہوں یا نام نہاد اپوزیشن والے سبھی چپ سادھے ہوئے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے انھیں سانپ سو نگھ گیا ہو اور اس کی دہشت وحشت نے ان کی زبانیں گنگ کر ڈالی ہوں۔کچھ عرصہ قبل عمران خان نے سرحد کی سر زمین سے اتحادی افواج کے کنٹینرز گزرنے کی پابندی لگائی تھی یہ محاذ کیسے بند ہو گیا خدا ہی بہتر جانے اس ایکشن سے ایم کیو ایم نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا تھا کہ سینکڑوں اسلحہ سے بھرے کنٹینرزہی “گم ” کرڈالے اور ہزاروں کی تعداد میں جدید اسلحہ کا رکنوں کے گھروں میں ڈمپ کر ڈالاجس سے کراچی کے ہر محلے کا” آتش فشاں” بن جانا لازمی امر تھاہمارے سیکورٹی اداروں کاا ولین فرض بنتا ہے کہ وہ لاکھوں کی تعداد میں اسلحہ ضبط کریں وگرنہ رائ،امریکی یہودی سامراجیوں کے کہنے پر کسی بھی وقت “ملک دشمن دھماکہ” ہو سکتا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن تو حکومتی اتحادی ہونے کی وجہ سے ڈرون حملوں پر بالکل نہیں بولتے کہ اس طرح ” شریفوں ” سے دوستی میں فرق پڑ سکتا ہے وہ تو پی پی سے مل کر فوجی عدالتوں کی بھی دوبارہ زیادہ عرصہ تک بحالی کے مخالف ہیں جنہوں نے دہشت گردوں کے خلاف جلد کاروائیاں کرکے ان کی کمر توڑ ڈالی تھی اس میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں کہ اچانک ڈرون حملے دوبارہ شروع ہو جانا ہمارے ملک کی سا لمیت اور خودمختاری پر سیاہ دھبہ ہیں۔دہشت گردی کا خاتمہ تو پوری قوم چاہتی ہی اور ہماری پاک افواج ،رینجرز اور پولیس کیا ان سے بخوبی نہیں نمٹ رہیں؟ پھر بیرونی ڈرون حملوں کا کیا جواز ہے ان کے ہٹ کرنے سے مطلوبہ ٹارگٹ کے ایک دو افراد کے علاوہ اور بھی درجنوں مظلوم لوگ شہادت پا جاتے ہیںخدا ایسی بلائوں سے مسلمانوں کو محفوظ رکھے اورہمارے کردہ نہ کردہ گناہوں کی معافی دے دیں۔
در اصل زرداری اور نوازشریف ایک دوسرے کی گاڑیوں کے فالتو پہیے ہیں جب ان کے اقتدار کے دور میں اپوزیشنی دھچکوں سے گاڑی پنکچر ہوجاتی ہے تو فالتو پہیہ لگ جاتا ہے اور گاڑی دوبارہ چلنے لگ جاتی ہے۔فوجی عدالتوں پر پوری قوم متحد ہے مگر حکومت کا خوددل نہیں مانتا تو زرداری صاحب کے ذریعے حیلے بہانے تلاش کیے جارہے ہیں انہوں نے کچھ نکات بیان کیے تو فوراً حکومتی گروہ اس کو پرکھنے دیکھنے اور عمل کرنے کے لیے تیار بیٹھا تھا اور مولانا فضل الر حمٰن تو اپنے “شریف بھائی” کی اجازت کے بغیر “ایسی محافل “میں شامل ہوہی نہیں سکتے۔من ترا ملاں بگوئم تو مرا حاجی بگو کی طرح حکمرانوں کابشمول زرداری صاحب کاروبار چل رہا ہے ۔اور عوام حکمرانوں اور دہشت گردوں کے نشانہ پر ہیں۔