کیا یہ خود کش حملہ آور دشت گرد ہوتا ہے؟ کیا خود کش حملوں کو روکنا ممکن ہے؟ ان کی پشت پر کون لوگ اُن کے کیا مقاصد؟ خود کش حملہ آور کا کیا مقصد..؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہمیشہ سے حل طلب ہیں مگر کوئی جواب نہین …مجھے یہ تسلیم کرنے میں تامل ہے کہ خود کش بمبار ،دہشت گرد ہوتا، وہ ایٹم بم ہے جس کا دنیا کے پاس کوئی توڑ نہیں کیا یہ خود کش حملہ آور دشت گرد ہوتا ہے ؟کیا خود کش حملوں کو روکنا ممکن ہے ؟ان کی پشت پر کون لوگ اُن کے کیا مقاصد؟ خود کش حملہ آور کا کیا مقصد..؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہمیشہ سے حل طلب ہیں مگر کوئی جواب نہین …مجھے یہ تسلیم کرنے میں تامل ہے کہ خود کش بمبار، دہشت گرد ہوتا ،وہ ایٹم بم ہے جس کا دنیا کے پاس کوئی توڑ نہیں
یہ ملا عمر یا بن لادن تو دشت گرد ہو سکتا ہے، مگر پندرہ سالہ عمر فدائی یا میر جانان ہر گز دشت گرد نہیں، اِس لئے کہ اُن کا تو کوئی مقصد ہی نہیں تھا، ١٥ اور ٢٠ برس کی عمر کا جس نے ابھی دنیا ہی نہیں دیکھی، اُس کی دنیا وہ چار دیواری جس کے وہ ایٹم بم بن رہا ہوتا ..پھر ایسے خود کش بمبار کے متعلق ایسی کوئی خبر نہیں آتی، وہ کون تھا؟ کس گھر کا چراغ، کس ماں کا لاڈلہ، کہ نہ کوئی رونے والا نہ کوئی کندھا دینے والا نہ کفن نہ جنازہ نہ قبر نہ مقبرہ….جس کسی نے بھی ایک مرتبہ دنیا دیکھ لی وہ بقائمی ہوش و حواس کبھی خود کش حملہ نہیں کر سکتا …چار سدہ میں عید الضحیٰ کے موقع پر خود کش حملہ میں جاں بحق ہونے والے معصوم لوگوں کو روئیں یا پریڈ لائین پنڈی مسجد میں سجدہ ریز ہوئیے بیگناہوں کویا داتا دربار پر آئے معصوم زائرین کو یا ماتمی جلوس میں مرنے والوں کو کس کس کو روئیں یہ تعداد تو ہزاروں میں ہے، پھر داتا دربار لاہور کے عرس اور ماتمی جلوس پر ہونے والے خود کش حملہ جس، سے بہت بڑی تباہی سے تو بچ گئے۔
تاہم ١٣ افراد جاںبحق اور ١٠٠ سے زائد زخمی ہوئیے اور پشاور میں یکے بہ دیگرے تین دن دھماکے ہوئیے، عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر حملہ اور پھر سخی سرور کے مزار پر حملہ، اور کتنے گنے …عمر فدائی نے بہت کچھ کھول کر بیان کر دیا ہے، اِس سے پہلے ستمبر ٢٠٠٨ نوشہرہ کینٹ میں عین حملہ کرنے سے پہلے ہی خود کش بمبار گرفتار کیا گیا اُس نے اپنا نام میر جانان بتایا جنوبی وزیرستان کے ایک کیمپ میں تربیت حاصل کی پھر ڈیرہ اسماعیل خان میں، سرگودھا سے بھی زندہ گرفتار ہوئے اور ہمیشہ تفتیش کے لئے نامعلوم مقام پر منتقل کردئے کی خبر آتی ہے۔ پھر کوئی خبر نہیں، اگر تو تحقیق و تفتیش کا دائرہ اُس منبہ تک پہنچتا جہاں سے یہ سوتے پھوٹتے ہیں اور انہیں بند کر دیا جاتا تو اگلا خودکش حملہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
مگر ستمبر ٢٠٠٨ میں میر جانان نے عدالت میں بہت کچھ کھول کر بیان کیا اُس کیمپ کی نشاندہی جہاں باقائدہ خودکش حملہ آور تیار کئے جاتے ہیں، اُس کے پاس سے ایک تحریر بھی برآمد ہوئی جس پر رقم تھا جب تم جنت میں پہنچو گے تو تمہارے سر کو اٹھانے کے لئے حوروں میں مقابلہ ہو گا، زرا سوچیں معصوم و شفاف کاغذ کی طرح ذہن کے پردے پر، وارثِ ممبر رسولۖ نے جو کچھ بھی لکھ دیا اُسے د نیا کی کوئی طاقت مٹا نہیں سکتی تاوقت یکہ اُسے ہوش میں لا کر دنیا نہ دکھائی جائے، کہ وہ تو ہپناٹائز، یا عامل کے معمول کی طرح صرف عامل کی آواز سُن سکتا ہے اور خاموشی سے روبوٹ کی طرح مقتل کی طرف جاتا ہے۔
Jamaat Islami
دینی جہادی جماعتیں خصوصاً اور بعض سیاستدان بھی اِن کے لئے نرم گوشہ یعنی کل تک یہی نرم لفظ استعمال کیا جاتا، مگر نومبر ٢٠١٣ میں یہ حجاب بھی نہ رہا جب جماعت اسلامی اور جے یو آئی نے حکیم اللہ محسود کو شہید اور ملک کی سرحدوں کے محافظوں کی قربانیوں کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ وہ شہید نہیں، ماضی کی تاریخ کی سچائی نئی نسل کے سامنے آئی کہ جماعت ابتداء سے ہی پاکستان کے خلاف تھی، پاکستان کی سلامتی اور آئین کے خلاف ہتھیار استعمال کرنے والے، پاکستانی معصوم شہریوں کے قاتل ڈرون حملوں میں مارے جائیں تو شہید، ملک میں، قتل و غارتگری بم دھماکے خود کش حملوں کو ڈرون حملوں کا ردعمل کہہ کر، طالبان کی طرف سے حملوں کے لئے جوازں مہیا کرتے ہیں۔
سوال ہے عوام کا ڈرون سے کیا، امریکی صدر اوبامہ نے اقوام عالم کے فورم پر قوموں کو مخاطب کرتے ہوئے کسی لگی لپٹی کے ٢٤ ستمبر ٢٠١٣ کو کہا کہ ڈرون حملے وہاں جاری رہیں گے جہاں دشمن تک پہنچنا مشکل ہے، پھر ڈرون ٢٠٠٤ میں شروع ہوئے لیکن ٢٠٠١ سے ٠٤ تک ہونے والے ایسے حملوں اور قتل و غارت گری کے لئے ایسے لوگ دہشت گردوں کے لئے کیا جواز پیش کریں گے مثلاًاہل تشیع اور مسیحیوں پر ہونے والے حملوں کا کیا جواز اقلیتوں پر ہونے والے ایسے حملے تو کسی گنتی ہی میں نہیں ،ابھی تک، مسجدوں اور امام بارگاہوں پر ہونے والے حملوں کے ذمہ داران محفوظ و مامون ہیں یہی نہیں بلکہ فوجی چوکیوں اور قافلوں پر پولیس تھانوں پر باقائدہ حملے …. ا جی ایچ کیو پر حملہ کوئی معمولی واقع نہیں جسے نظر انداز کر دیا۔
جبکہ فوج خواہ ایک سپاہی، یا افسر پر حملہ پاکستان پر حملہ… ،کنٹرول لائین پر بھارتی فائرنگ سے ایک اور دو سپاہی شہید ہوئے کہ وہ دشمن …، اگر کوئی پاکستانی، فوج کے خلاف بندوق اُٹھاتا ہے تو وہ آئین و قانون کے مطابق غدار ہے وہ کسی رو رعائت کا مستحق نہیں، مگر قوم و ملک کی بد قسمتی کہ جو اعلانیہ فوج کے خلاف کاروائیاں کر رہے اُن کے لئے جواز مہیا کیا جاتا اور انہیں شہید قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ انہیں تحریک طالبان پاکستان کہا جاتاہے، اِن کی کاروائیوں، جو ہزاروں مصوم لوگ اور پانچ ہزار سے زائد فوجی جوان اور آفیسران شہید کر دئے گئے اِس پر کوئی رد عمل نہیں، جو ہنگوں کی تحصیل ٹل میں واقع مدرسے جس میں مارے جانے والوں کے متعلق متضاد خبریں کہیں، یہ مدرسہ پارا چنار روڈ پر جس سے دو کلو میٹر پر ٹل سکاؤٹ، آرمی کا ایک بریگیڈ ہے تین طالبان کمانڈر مدرسے میں بچوں سمیت مارے گئے۔
یہ اہم سوال ہے کہ طالبان کمانڈر اور مطلوب لوگ جبکہ اُنہیں علم ہوتا ہے کہ ڈرون اُن کے تعاقب میں ہے پھر بچوں اور خواتین کو کیوں ساتھ رکھتے ہیں ….اِس ڈرون حملہ کے بعد جناب عمران خان نے اپنی حکومت داؤ پر لگا کے ڈرون کے خلاف نیٹو سپلائی روکنے کیلئے دھرنا دیا جو آخر کامیاب ہوأ… مگر پشاور میں چرچ پر خود کش حملہ میں ایک بھی بچہ نہیں تھا جو میڈیا میں تصویریں دکھائی گئی ہیں وہ پتہ نہیں کہاں سے حاصل کی اگر وہاں بھی معصوم بچے اور خواتین ہوتے …تو خود کش حملوں پر عمران خان کودھر دینا پڑتا …. ہزاروں معصوم شہریوں اور پاکستانی فوج کے جوانوں اور افسروں کے قاتلوںپر ڈرون حملوں سے ملک میں اُن کے حمائتی، اب نرم لفظوں میں یہ کہنے پر مجبور ہوئے،کہ ملک میں دہشتگردی اور بدامنی ایک کارو بار بن گئی ہے جس سے دہشت گردی کرنے والے بھی منافع میں اور دہشت گردی روکنے والے بھی فائدے میں، سیدھے اور صاف واضح یہ نہیں کہتے کہ اگر امن قائم ہوتا ہے تودونوں کے ڈالر بند ہو جائیں گئے…. جو ٢٠٠٢ سے اب تک ١٦۔ارب ڈالر پاکستان کو دئے جا چکے ہیں۔
اب امریکی وزیر دفاع نے حکمرانوں کو کہا ہے اگر نیٹو سپلائی بحال نہ کی گئی تو امداد بند ہو سکتی (بند کر دی جائے گی)ہے ظاہر، عمران خان اور دیگر دینی جماعتیں اِس امداد سے حصہ چاہیں گے اور امید کرنی چاہے عنقریب راستہ کھول دیا جائے گا ،میں نے پارا چنار تک کا سفر انتہائی مشکل حالات میں کیا جب زمینی راستہ منقطع تھا کرم ایجنسی کے حالات پر لکھا، تب بھی لکھا کہ اگر حکومت چاہے تو ایک دن میں امن ہو سکتا….!،پھر کچھ عرصہ بعد اسی عنوان سے واضح لکھا کہ امن کی راہ میں ڈالر رکاوٹ ہیں، اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان جہادی تنظیموں کو بھی ملک میں عدم استحکام کے لئے تمام وسائل اور ڈالر ملتے ،حکومت کو بھی کولیشن فنڈ کے زریعہ …گزشتہ برس سابق وزیر آعظم نے امریکا سے کہا کیولیشن فنڈ کے دو، ارب ڈالر فوری ادا کرے اب یہ ڈالر ہی ہی ملک میں امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اور اب دوسری قوتیں بھی ڈالروں میں حصہ دار بننے کے لئے میدان میں آگئیں ہیں ….انتظار کریں اب اگے کیا ہو گا ….حالات سے یہی ظاہر ہے امن مشکل …..!!!