واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی محکمہ خارجہ نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ سعودی صحافی جمال خشوگی کی ہلاکت سے متعلق حکومت کسی نتیجے پر نہیں پہنچی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اِن رپورٹوں سے اختلاف کیا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے مطابق، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے خشوگی کو ہلاک کرنے کا حکم دیا تھا، جیسا کہ ‘واشنگٹن پوسٹ’ کے ایک کالم نگار نے لکھا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے ایسی رپورٹوں کو ”غیر درست” قرار دیا ہے۔
سی آئی اے کی سربراہ گینا ہسپال اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ہفتے کے روز ٹیلی فون پر خشوگی کیس سے متعلق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو بریف کیا، جب وہ کیلی فورنیا جا رہے تھے۔
محکمہ خارجہ نے یہ بیان جاری کیا ہے، جس سے چند ہی منٹ قبل صدارتی ترجمان سارا سینڈرز نے کہا کہ ٹرمپ کو ”سی آئی اے پر اعتماد ہے”۔
امریکی محکمہ خارجہ نے یہ بھی کہا کہ امریکی حکومت ”ہلاکت کے ذمے دار تمام لوگوں کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کے عزم پر قائم ہے”، اور یہ کہ ”کئی ایک جواب طلب سوالات” باقی ہیں۔
سی آئی اے کے اندازے کے مطابق، جسے جمعے کے روز ‘پوسٹ’ نے رپورٹ کیا، سعودی عرب کی رپورٹ سے متضاد ہے، جس کے چوٹی کے استغاثے نے ایک روز قبل خشوگی کی موت کے الزام سے ولی عہد کو برَی قرار دیا تھا۔
امریکی حکام نے کہا ہے کہ سی آئی اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ سعودی حکومت کے ایک طیارے میں 15 سعودی ایجنٹ استنبول گئے جہاں دو اکتوبر کو سعودی قونصل خانے میں کشوگی کو قتل کیا گیا، جہاں وہ ایک ترک خاتون سے مجوزہ شادی کے لیے درکار دستاویز اٹھانے کے لیے گئے تھے۔
‘پوسٹ’ نے کہا ہے کہ سی آئی اے متعدد انٹیلی جنس ذرائع کی اطلاعات کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچی، جن میں شہزادے کے بھائی، خالد بن سلمان کا ٹیلی شامل ہے، جو امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر ہیں، جو فون کال اُنھوں نے خشوگی سے کی تھی۔
اس ٹیلی فون کال میں خالد نے خشوگی سے کہا تھا کہ دستاویز لینے کے لیے وہ استنبول کے قونصل خانے جا سکتے ہیں، جہاں وہ محفوظ ہوں گے۔ روزنامہ نے کہا کہ یہ بات معلوم نہیں آیا خالد کو اس بات کا علم تھا کہ خشوگی کو ہلاک کیا جائے گا۔
جمعے کے روز ایک ٹوئیٹ میں خالد نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اُنھوں نے خشوگی کے ساتھ بات کی تھی۔