اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) انسداد منشیات کی خصوصی عدالت نے ممبر قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 2 نومبر تک توسیع کر دی۔
انسداد منشیات کی خصوصی عدالت میں رانا ثناء اللہ کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔
اے این ایف کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ موبائل فون کمرہ عدالت میں آن کر کے ریکارڈنگ کی جا رہی ہے، جس پر رانا ثناء اللہ کے وکیل نے کہا کہ یہ وکیل ہمارے ساتھ نہیں ہیں، یہ لوگ پراسیکیوشن کی طرف سے آئے ہیں۔
جج نے موبائل فون سے ریکارڈنگ کرنے والے شخص سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟
موبائل فون سے ریکارڈنگ کرنے والے وکیل نے بتایا کہ میرا نام عمر گجر ایڈوکیٹ ہے اور میں رانا ثناء اللہ کے ساتھ ہوں۔
اے این ایف پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ ریکارڈنگ کر کے ڈبنگ کرتے ہیں اور حقائق کو مسخ کرتے ہیں۔
جج نے کہا کہ کمرہ عدالت میں ریکارڈنگ نہ کریں ورنہ حکم دیں گے کہ عدالت میں 5 سے زیادہ بندے نہ ہوں، باہر والا کام باہر کریں اور عدالت والا کام عدالت میں کریں۔
اے این ایف پراسیکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ ہمیں بھی آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت فیئر ٹرائل کا حق دیا جائے تاہم عدالت نے رانا ثناء اللہ کا ٹرائل شروع کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔
جج خالد بشیر نے کہا کہ بطور ڈیوٹی جج فرد جرم عائد کر کے ٹرائل شروع نہیں کر سکتا۔
جج نے اے این ایف کے تفتیشی افسر عزیز اللہ سے استفسار کیا کہ آپ کے پاس موبائل فون کا اپنا نمبر ہے یا آفیشل؟
تفتیشی افسر نے بتایا کہ یہ میرا ذاتی سیل فون نمبر ہے اور اس کے علاوہ میرا کوئی نمبر نہیں۔
عدالت نے رانا ثناء اللہ اور تفتیشی افسر کو موبائل فون ڈیٹا ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے ن لیگی رہنما کے جوڈیشل ریمانڈ میں 2 نومبر تک توسیع کر دی۔