امریکا اس وقت دنیا سے منشیات کی پیداوار ختم کرنے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کر رہا ہے، لیکن ماضی میں یہی امریکا انسانی دماغ کو قابو کرنے کے لیے اس کا استعمال کرتا رہا ہے۔ پچاس کی دہائی سرد جنگ کی شروعات تھی، جب سوویت یونین اور امریکا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے سوائے جنگ کے ہر ذریعہ استعمال کر رہے تھے۔ اسی دَور میں امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے فیصلہ کیا کہ دشمن کو شکست دینے کے لیے اُس کے دماغ کو اپنے کنٹرول میں لینا ضروری ہے۔ چناںچہ منشیات کے ذریعے انسانی دماغ پر قابو پانے اور اُس کے اندر چھپی معلومات تک رسائی کے لیے MK-ULTRA نامی ایک پروگرام ترتیب دیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت سی آئی اے نے LSD نامی منشیات کے ذریعے انسانی دماغ کو قابو کرنے کے تجربات کیے۔
ایل ایس ڈی فریب نظر میں مبتلا کرنے والا نشہ ہے جسے پہلی مرتبہ 1938ء میں لیبارٹری میں بنایا گیا تھا۔ یہ انتہائی طاقت ور نشہ ہے۔ اسے ’ایسڈ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ایل ایس ڈی کا ذہن پر بہت شدید اثر ہوتا ہے۔ منشیات کے عادی افراد اسے ’ٹرپ‘ (جال) کے نام سے جانتے ہیں، جس کے استعمال سے انسان فریبِ نظر کا شکار ہو جاتا ہے اور اُسے غیر مری آوازیں اور چیزیں سُنائی اور دکھائی دینے لگتی ہیں۔ ساٹھ کی دہائی کے وسط میں بہت سے ممالک نے اس مواد کو غیر قانونی قرار دیا۔ اس کا استعمال کرنے والے بعض افراد کو خوفناک اور ڈراؤنی چیزیں نظر آتی ہیں اور بعض خوش گوار تجربات سے گزرتے ہیں۔
منشیات کے ذریعے دشمن کے دماغ پر قابو پانے کے منصوبے کے تحت سب سے پہلا تجربہ سی آئی اے نے خود اپنے ایجنٹوں پر کیا۔ جو ایجنٹ اس تجربے کے لیے تیار ہوئے، اُنھیں ابتداء میں ایل ایس ڈی کی تھوڑی مقدار دے کر اُن کی ذہنی کیفیات نوٹ کی گئیں۔ بعد ازاں منشیات کی مقدار بڑھا دی گئی۔ ایجنٹوں پر بے خبری میں منشیات دینے کے تجربات بھی کیے گئے۔ اُن کی صبح کی کافی میں ایل ایس ڈی کی مقدار شامل کر دی جاتی۔ بہت جلد یہ بات ایجنٹوں کو پتہ چل گئی۔ چناںچہ 1954ء میں سی آئی اے کی آفس پارٹی میں ہر کوئی ایک دوسرے سے ڈرا ہُوا نظر آتا تھا۔ ایک ایجنٹ اتنا محتاط تھا کہ اُس نے پارٹی میں پیش کی گئی شراب کو ہاتھ تک نہ لگایا اور اپنے ساتھ لائی بوتل پیتا رہا۔ اُس نے پارٹی کے دوران ایک سیکنڈ کے لیے بھی بوتل خود سے جُدا نہ کی کہ مبادا کوئی نظریں بچا کر اُس کی بوتل میں ایل ایس ڈی نہ ڈال دے۔
دشمن کی نظریں بچا کر صفائی کے ساتھ منشیات کھانے پینے کی چیزوں میں ڈالنے کے لیے ہاتھ کی صفائی کی ضرورت تھی، چناںچہ اس کام کے لیے سی آئی اے نے اپنے ایجنٹوں کی تربیت کے لیے شعبدے باز جان مُلہولینڈ کی خدمات حاصل کیں جو ہاتھ کی صفائی کے حوالے سے شہرت رکھتا تھا۔ اُس نے ایجنٹوں کو سکھایا کہ کس طرح شکار کی توجہ بٹا کر اُس کی شراب یا چائے کی پیالی میں ایل ایس ڈی کے چند قطرے شامل کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً اگر دشمن کاؤنٹر پر بیٹھا شراب پی رہا ہو تو اُس سے دعا سلام کرتے ہوئے اسے سگریٹ کی آفر کریں اور اُس کی سگریٹ سلگانے کے بہانے سامنے رکھے جام میں ایل ایس ڈی گرا دیں۔ جان مُلہولینڈ نے ایجنٹوں کو ماچس کی ڈبیا میں منشیات چپکا کر سگریٹ سلگانے کے بہانے شراب کے جام میں گرانا بھی سکھایا۔
کیوبن انقلاب کے بعد سی آئی اے نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ ہر صورت انقلاب کے بانی فیڈل کاسترو کو ہلاک کر دے گی۔ اس سلسلے میں کاسترو کو ختم کرنے کے 638 منصوبے بنائے گئے، جو ایک کے بعد ایک ناکام ہوتے چلے گئے۔ ان میں ایک مضحکہ خیز منصوبہ یہ تھا کہ ٹی وی سٹوڈیو میں کاسترو کی براہ راست تقریر سے پہلے اُس پر ایل ایس ڈی کا سپرے کیا جائے، تا کہ نشے کی حالت میں کاسترو قوم کے سامنے بہکی بہکی باتیں کریں اور اُس کا عوامی امیج خراب ہو۔ یہ منصوبہ عین موقع پر امریکی حکومت کے کہنے پر ختم کر دیا گیا۔ امریکا کاسترو کو ذلیل و رسوا کرنے کے بجائے اُس کی جان لینا چاہتا تھا۔