تحریر : خواجہ وجاہت صدیقی گزشتہ دنوں میں نے منشیات کی بڑھتی ہوئی لعنت اور اس کے روک تھام کے حوالے سے اپنے الفاظ کو صفحہ قرطاس پر لانے کی کوشش کی تھی، قارئین کا میں بے حد مشکور ہوں جنہوں نے مجھے پذیرائی بخشی اور میری تحریر پر مجھے حوصلہ دیا،اس سے بھی بڑھکر مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میری آواز کیساتھ آواز بن کر سول سوسائٹی نے بھی اپنا حق ادا کیا اور انتظامیہ کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کیلئے احتجاجی ریلیاں بھی نکالیں اور اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔
منشیات کی اس بڑھتی ہوئی لعنت کیخلاف ڈی پی او مانسہرہ اھسن سیف اللہ نے بھی گزشتہ دنوں اپنے مئوقف کو دہرایا ہے کہ وہ منشیات فروشوں سے کوئی رعایت نہیں برتیں گے او ان کیخلاف سخت کاروائیاں عمل میں لائی جائیں گی،گو کہ ابھی تک ضلع مانسہرہ میں اس طرح کا تو کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا مگر میری نظروں سے گزرنے والی ایک غیر ملکی رپورٹ نے میرے رونگٹھے کھڑے کر دیے ہیں کہ صرف ہمارے ملک پاکستان میں نشہ کرنے والے افراد کی تعداد 67 لاکھہے،اس بات کا پتہ جرائم اور منشیات کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یواین او ڈی سی) نے پاکستان میں منشیات کے استعمال سے متعلق اپنی ایک رپورٹ میں کیا ہے۔ سروے رپورٹ کے اعدادوشمار کو ماہرین ایک خراب صورتحال سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
Drugs used in Pakistan
رپورٹ کے مطابق ملک میں 67 لاکھ افراد نشے کے عادی ہیں،ان میں مختلف طریقوں سے نشہ آور اشیاء کا استعمال کرنے والوں میں 15 سے 64 سال کی عمر کے افراد شامل ہیں۔ نشے کے عادی افراد میں 20 فیصد خواتین کی ہے رپورٹ کے مطابق 16 لاکھ افراد ادویات کو بطور نشہ استعمال کرتے ہیں اور اس میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے،یو این او ڈی سی کے حکام نے بتایا کہ پاکستان میں یہ سروے گزشتہ برس پہلی بارکرایا کیا گیا تھا اور اس کے نتائج اس بات کے متقاضی ہیں کہ پاکستان کو منشیات کے استعمال کی روک تھام کے لیے اب صرف حکمت عملی ترتیب دینے کے بجائے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
اس سے بھی ھیران کن اور قابل تشویش یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ منشیات کے حوالے سے سب سے زیادہ کھیپ خیبر پختونخواہ میں تیار بھی ہوتی ہے اور زیادہ کھیپ اترتی بھی یہیں ہیں،اب یہی نہیں بلکہمنشیات کے عادی افراد میں تباہ کن بیماریوں مثلاً ایڈز کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے ،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ منشیات کے استعمال کے تباہ کن اثرات کا شکار ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال پاکستان کے 67 ملین افراد نے ‘منشیات’ کا استعمال کیا،رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ پاکستان میں افیون پیدا نہیں کیجاتی ہے، مگر اس کے پڑوسی ملک افغانستان سے پاکستان اور کراچی کے ذریعے دنیا بھر میں بڑی مقدار میں منشیات فروشی کا ناجائز کاروبار جاری ہے،سروے رپورٹ کے مطابق، گزشتہ برس پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں منشیات کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔
صوبے میں نوجوان طبقے میں یہ شرح 19 فیصد جبکہ صوبے کی آبادی کا بڑا حصہ بھنگ، افیون اور دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال کرتا ہے۔صوبے کے ایک لاکھ چالیس ہزار افراد ہیروئن کا نشہ،84 ہزار افراد افیون کا نشہ کرتے ہیں، دیگر صوبوں کے اعدادوشمار کے موازنے کے اعتبار سے، خیبرپختونخوا میں افیون کا نشہ کرنیوالے افراد کی تعداد ملک بھر سے انتہائی زیادہ ہے۔
Drugs user in Khyber Pakhtunkhwa
نشے کے عادی افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ تشویشناک اس لیے بھی ہے کہ اگر ملک عزیز میں منشیات کے خاتمے کیلئے الگ سے انٹی نارکاٹکس فورس بھی ہے اور محکمہ پولیس بھی سرگرم اور ہر ماہ بلکہ ہر ہفتے اسی محکمہ سے منشیات کے حوالے سے کارکردگی رپورٹ بھی طلب کی جاتی ہے مگر یہی ہنوز نشہ ختم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے،پاکستان خاص کر خیبر پختونخواہ میں نوجوان طبقہ کا یوں منشیات جیسی لعنت کی جانب راغب ہونا ہمارے اداروں کی کہیں نہ کہیں سے کمزوریوں کو ظاہر کر رہا ہے کہ جہاں اس جانب توجہ نہیں دی جا رہی، ہمسایہ ملک چین میں منشیات کی سزا موت ہے جبکہ اس کے ساتھ جڑے ملک افغانستان کے بارے میں یہی تااثر سامنے آ رہا ہے کہ کراچی کے راستے چمن اور خیبر سے منشیات کی سب سے زیادہ اسمگلنگ پاکستان ہوتی ہے حالنکہ افغانستان سے قریبی ممالک میں چائنہ،بنگلہ دیش،انڈیا اور ایران بھی ہیں مگر وہاں نشہ اس طرح عام نہیں جس طرح ہمارے ہاں منشیات کا کھلے عام دہندہ ہو رہا ہے۔
منشیات کے خاتمے کیلئے ذمہ داروں کو اپنا مناسب و اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اگر قبل از وقت کچھ نہ کیا گیا تو ہمارا مستقبل تباہ ہو جائے گا ،کیونکہ ملک عزیز پاکستان کو لا حق خطرات میں سے ایک بڑا خطرہ منشیات کا خطرہ ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہوں یا غیر ترقی یافتہ، سب کے سب اپنے شہریوں کو منشیات سے بچانے کے لیے سرگرم نظر آتے ہیں، منشیات نے ایک وبا کا روپ اختیار کر لیا ہے اور یہ وبا تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے، اس وبا کا اصل منبع ہمارا پڑوسی ملک افغانستا ن ہے، اس کی سمگلنگ شدہ منشیات پاکستان بھر میں استعمال ہوتی ہے اور دیگر کئی ممالک میں بھی پھیلتی ہے،اس طرح سے منشیات کا دھندہ اور اسکا بڑھتا ہوا استعمال ایک وبا اور چیلنج کی صور ت اختیار کر گیا ہے، پاکستان میں نشہ کے لئے زیادہ تر چرس،کیمیائی ادویات جیسے ڈائیز اپام،ہیروئن اور گٹکا وغیرہ کا استعمال ہوتے ہیں،اس کے علاوہ نشہ کے عادی لوگوں کی ایک کثیر تعداد ٹیکہ کے ذریعے ادویات کا استعمال کرتی ہے۔
کوئی بھی شخص پیدائشی طور پر منشیا ت کا عادی نہیں ہوتا، اکثر لوگ برے دوستوں کی صحبت میں اس کی جانب مائل ہوتے ہیں،یہ برے دوست اکثر فیشن کے طور پر منشیات کو استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ذہنی پریشانی، دباوئو، ڈپریشن وغیرہ بھی بعض اوقات انسان کو نشے کے استعمال کی جانب لے جاتی ہیں، وہ لوگ جو فلموں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور نفسیاتی طور پر اس کے اچھے یا برے کرداروں کی پیروی کرتے ہیں، وہ بھی نشے کی لت میں گرفتار ہو جاتے ہیں،اب اگر اپنے ملک کے نوجوانوں کو منشیات سے بچانا ہے تو ضروری ہے کہ حکومتی قوانین کو مضبوط بنایا جائے۔