کوئی بھی عقل مند شخص کبھی بھی زہر نہیں پیتا۔ مگر ہاں شیطان صفت قومیں دوسری قوموں کو منشیات کی شکل میں زہر پیلاتے رہے ہیں۔ تاکہ ان قوموں کے نوجوانوں کو نشے کا عادی بناکر اتنا کمزور کر دیا ۔ تاکہ وہ ان کے خلاف آزادی کی تحریکں نہ چلا سکیں۔ انگریزوں نے تو اپنے محکوم ملکوں میں یہ شیطانی عمل شروع کیا تھا۔ مکافات عمل کے یہ عمل اُلٹا ان کے اپنے ملکوں میں منشیات کی شکل رائج پا گیا۔ ان کے معاشروں میں منشیات کا استعمال شروع ہوا۔ اور وہاں سے ان کے عوام نشے میں دھت ہپیوں( خوش باش) کی شکل میں مختلف ملکوں میں گئے۔ لوگوں نے دیکھا کہ یہ ہیں وہ گوری چمڑی والے لوگوں کا معاشرہ جس میں ایسے سوکھے تن والے نشی ہیپی لوگ رہتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمارے اوپر حکمرانی کر گئے ہیں۔ محکوم رہنے والے ملکوں میں ان کیخلاف نفرت نے جنم لیا۔
افیون کی کاشت ہمارے علاقوں میں سے افغانستان میں سب سے زیادہ کی جاتی ہے۔ افیون میڈیکل میں کام آتی ہے۔ اور افیون سے ہی مختلف قسم کی منشیات تیار ہوتیں ہیں۔جب قوم پرست کیمونسٹ افغانستان مجائدین سے شکست کی کی وجہ سے امارت اسلامیہ بنا۔ افغان مجائدین نے قوم پرستی اور ان کے بڑے ابا جی کیمونزم کو شکست دی۔ تو دوسری اچھی چیزوں کے ساتھ افیون کی کاشست پر بھی پابندی لگا دی ۔ یہ ایک انسانیت دوست اقدام تھا۔ مگر صلیبیوں کے سرغنہ شیطان ِ کبیر امریکانے اپنے مذید ٤٨ ناٹو شیطانوں کے ساتھ حملہ کر کے امارت اسلامیہ کو تورا بورا بنا دیا۔ اس میں ہمارے بزدل کمانڈو ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا بھی ہاتھ تھا۔ وہ قوم پرست کمال اتاترک بننا چاہتاتھا۔پاکستانی اسلامی معاشرے کو امریکا کے کہنے پر روشن خیال معاشرہ بنانا چاہتا تھا۔مگر اب عبرت کا نشان ، بھگوڑا بنا دنیا میں در بدر ہو رہا ہے۔ مگر فاقہ مست افغانوں نے جیسے پہلے برطانیہ اور کیمونسٹ ریشیا کو اپنے ملک سے بگایا تھا۔ ایس ہی صلیبیوںکے سرغنہ شیطان کبیر امریکا کو بھی شکست سے دور چار کر دیا۔ اب وہ افغانستان سے بچی کچی فوج نکالنے کے لیے پاکستان اور طالبان سے مذاکرات کی میز پر آن بیٹھا ہے۔
پاکستان میں بھی افیون کی کاشست پر پاندی ہے۔ دنیا کی طرح ہمارے ملک میں بھی منشیات کے استعمال سے نوجوان تباہ ہو رہے ہیں۔منشیات کے کنٹرول اور روک تھام کے لیے ناڑکوٹک کا ادرہ قائم ہے۔پھر بھی پاکستان اور دنیا میں لاکھوں نوجوان اپنے آپ کو قتل کر رہے ہیں۔ معلومات کے مطابق ہر سال آگاہی کے لیے عالمی انسدات منشیات کی طرف سے اعداد شمار جاری کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد بڑھتی جا رہا ہے۔ پاکستان میں منشیات کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے انٹی نارکوٹک فورس کا ادارہ قائم ہے جو منشیات کی روک تھام میں دن رات مصروف رہتا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ ادرہ میڈیا کو بھی اس نیک کام میں شریک کرتا رہاتا۔ صحافی حضرات بھی منشیات کی لعنت کوختم کرنے کے لیے اپنے کالموں میں آگاہی مہم میں شریک ہو جاتے ہیں۔منشیات کے عادی لوگوں کو اس بات کا شعور نہیں کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے ۔اس نعمت سے انسان کو فائدہ مند ہونا چاہیے نہ کہ اس کو وقت سے پہلے اپنے ہی ہاتھوں ختم کر کے اللہ کی نعمت سے اپنے آپ کو محروم کرنا ہے۔
اس سلسلے میں عام عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے بین الاقوامی طور پر ہر سال عالمی یوم انسدات منشیات کا دن ٢٦ جون کو منایا جاتا ہے۔ دنیا اور خاص کر پاکستان کے سوچنے سمجھنے والے طبقہ کو اس میں تعاون کرنا چاہیے کیونکہ یہ بین الاقوامی مسئلہ ہے جسے سب نے مل کر اور مربوط ہوکر منشیات کے استعمال اور اسمگلنگ کے خلاف صف آرا ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میںپاکستان نارکوٹک فورس نے لکھاریوں کو عوام کے منشیات کے استعمال اور اسمگلنگ میں شعور کو بلند کرنے کے لیے خطوط لکھے ہیں جو ایک اچھی اور قابل تعریف کاوش ہے۔
لکھاری جہاں عوام کو بااختیار حلقوں کی کرپشن اور دوسری برائیوں کی معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں،منشیات کے استعمال اور اس کی اسمگلنگ کے خلاف بھی شعور بیدار کرنا کے لیے کالم لکھنے چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ گلی کوچے کے نوجوان منشیات استعمال کرنے کی لعنت میں میں مبتلا ہوتے تھے ۔اب تو یونیورسٹیوں میں علم حاصل کرنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس لعنت میں مبتلا ہیں ۔ آئے دن اخبارات میں یونیورسٹیوں کے لڑکوں لڑکیوں کے منشیات استعمال کرنے کی خبریں پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ آج ہم اپنے اس کالم میں منشیات کیا ہیں۔ انکے استعمال کے کیانقصانات ہیں۔اس کو روکنے کے ذرائع کیا ہیں۔ منشیات ہر اس چیز کے استعمال کو کہتے ہیں جس سے انسان کے ہواس باختہ ہو جائیں۔ جس سے انسان صحیح اور غلط کے ادراک سے محروم ہو جائے۔ جس کے استعمال سے آدمی کا دماغ صحیح کام کرنا چھوڑ دے۔جس کے استعمال سے آدمی کو نشہ چڑھ جائے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ گلی کوچوں اور محلوں میں منشیات کے عادی لوگ بھیک مانگتے ہوئے ملتے ہیں۔ ان کے جسموں پرگندھے کپڑے اور کمزور ڈھانچے اس بات کی نشان دہی کر رہے ہوتے ہیں کہ نشے نے اس
٢ کے خواس کو سوچنے سمجھنے کی حس کو ختم کر دیا ہے۔ اس کی صحیح اور غلط کے ادراک کی قوت مفلوج ہو گئی ہے۔اللہ کی طرف سے زندگی کی جو نعمت عطا کی گئی تھی اس کے نشے کی عادت نے اس کی اہمیت کو ضائع کر دیا ہے۔ اب وہ چلتا پھرتا انسانی جسم کا ایک ڈھانچا ہے جو سڑکوں پر بھیک مانگتا پھرتا ہے۔ کسی گندھی جگہ پر ایک لوتھڑا ہے جو پڑا ہوا ہے۔ کیا یہ انسانیت کی تذلیل نہیں ہے؟ ہمارے ملک میں آئے دن خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں لوگ جلد امیر بننے کے لیے منشیات کی اسمگلنگ کرتے ہیں۔ بار بار قانون کے ہاتھوں گرفتار ہوتے ہیں سزا پاتے ہیں ۔ مگر دولت کی ہوس انہیں پھر اس غلط کام پر آمادہ کرتی ہے۔کیا یہ ملک کی بدنامی نہیں ہے ؟ منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے معاشرے کو مل جل کر اقدامات کرنے چاہیے۔ حکومت نے منشیات کے عادی لوگوں کی اصلاح کے لیے محکمہ صحت میں انسدات منشیات کے سیکشن قائم کیے ہوئے ہیں جہاں منشیات کے عادی لوگوں کا علاج کیا جاتا ہے تاکہ وہ معاشرے کا کارآمند فرد بن سکیں۔
میڈیا کو بھی اس سلسلے میں عوام کی آگاہی کے پروگرام کرنے چاہیے۔ محکمہ تعلیمات کے نصاب میں منشیات کے استعمال اور اسمگلنگ کی روک تھام کو شامل کرنا چاہیے۔ علما حضرات کو ممبر اور محراب سے عوام کے اندر شعور بیدار کرنا چاہیے۔ صحافیوں کو بھی اپنے قلم کے جوہر سے عوام میں بیداری کی لہر پیدا کرنی چاہیے۔ پھر بھی جو لوگ منشیات کے استعمال اور اسمگلنگ میں ملوث پائے جائیں ان کے لیے ملک کے قوانین میں سخت سے سخت سزا رکھنی چاہیے تاکہ لوگوں کو عبرت ہو۔ مغرب کی بے جاآزادی کا جس نے انسان کوحیوان بنا دیا ہے کی نکالی سے مسلم معاشرے کو بچنا چاہیے۔ پھربُرا ہو مسلمان معاشرے کے ان نقالوں کا جو اس آزادی کی آڑمیں مغرب کی اچھائیوں کوایک طرف رکھ کر ان کی برائیوں کو اپنانے کی دوڑ میں اندھادھند مصروف ہیں۔ مغرب کے معاشرے میں شراب کا نشہ عام ہے۔ ان کی جامعات میں لڑکے لڑکیاں منشیات کا استعمال بھی عام ہے۔
منشیات کا تناسب بھی دوسرے معاشروں سے زیادہ ہے مگراس کو دجالی میڈیا میں کم کم دیکھاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر مسلمان معاشرے کے صرف دینی جامعات میں منشیات کے بارے میں تحقیقات کی جائیں تو یہ معلوم کر کے حیرت ہو گی کہ مغرب کے برعکس کنٹرول آزادی کے فلسفے کی وجہ سے ان میں منشیات کا استعمال زیرو ہے۔ اس طرح دینی مدرسوں میں ڈسپلن بھی مثالی ہے ۔ دینی جامعات میں آج تک رینجرز کو امن قائم کرنے کے لیے تعینات نہیں کیا گیا۔ مغرب زدہ مسلمان حکومتیں ان جامعات کو فنڈ بھی نہیں دیتی۔ یہ جامعات مسلمانوں کی زکوٰة اور صدقات سے چلتی ہیں۔ مگر نہ مغربی معاشرے اور ان کی حکومتوں نے مسلمانوں کے خلاف تعصب میںاس اچھی بات کو کبھی بھی نہیں سراہا۔ الٹا ان پر دہشت گردی کے کے ناروا الزامات لگاتے رہتے ہیں ۔اس میں مغرب سے امداد لینے والی مسلم حکومتیں بھی شامل ہیں۔
قارئین! منشیات کے ا ستعمال اور اس کی اسمگلنگ کو کنٹرول کرنے کے لیے اس کی پیداوار کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ صرف دوائیوںمیں استعمال کرنے کی غرض سے اس کی پیداوار کی اجازت ہونے چاہیے۔ معاشرے میں راتوں رات امیر بننے کے لیے لوگ منشیات اسمگل کرنے کی جرم میں میں شریک ہو جاتے ہیں لہٰذا امیر بننے کے اس شارٹ کٹ کے رجحان کو ختم کرنے کے اقدامات کرنے چاہییں۔ اسلامی اصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔نوجوان محرومی کی وجہ سے بھی غم غلط کرنے کی رجحان میں مبتلا ہو کر نشے کی غلط عادت میں پڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے قناعت پسندی کی تعلیمات کو عام کرنے چاہیے۔منشیات کی شکل میں آپ زہر پیتے ہیں۔ کوئی بھی عقل مند آدمی زہر نہیں پی سکتا؟۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے اس سے بھر پور فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ اللہ ہمارے عوام کومنشیات کی شکل میںزہر پینے سے بچائے۔ آمین۔