تحریر : حفیظ عثمانی اس چونکا دینے والی خبر نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا کہ کراچی سینٹرل جیل میں دیگر گھناؤنے جرائم کے ساتھ ساتھ منشیات فروشی کا دھندہ عروج پر ہے ۔اور یہ انکشافات کسی رپورٹر کی طرف سے جاری کسی ٹیبل سٹوری کا حصہ نہیں بلکہ اس مکروہ فعل کا ایک قیدی نے ویڈیو بیان کے ذریعے پردہ چاک کیا ہے جس کے مطابق جیل میں منشیات پولیس لاتی ہے اور قیدیوں سے فروخت کرواتی ہے۔ویڈیو میں بتایاگیا ہے کہ جیل میں منشیات بیچنے والے منشیات فروش نہیں بلکہ مجبور کیے گئے قیدی ہوتے ہیں،ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اغوابرائے تاوان کی وارداتیں بھی قیدیوں سے کرائی جاتی ہیں۔سینٹرل جیل میں بیٹھے ایک قیدی نے ویڈیو بنا کر جیل انتظامیہ کے مبینہ مکروہ دھندے کو بے نقاب کردیاہے۔ قیدیوں سے لوگوں کو اغواکرایا جاتا ہے اور اپنے ہی محکمے کو خوب بدنام کیا جاتا ہے۔قیدی کے ویڈیو بیان کے بعد ان الزامات کی تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ ان الزامات میں کتنی حقیقت ہے اور پولیس میں موجود بڑی کالی بھیڑیں کیا واقعی اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں، اعلیٰ حکام کو ان الزامات کی تہہ تک پہنچنا ہوگا اور اگر ایسا ہے تو پولیس سے ان کالی بھیڑوں کو نکالنا ہوگا۔
نشہ نہ صرف ایک بیماری ہے بلکہ یہ معاشرے میں پھیلی جرائم کی داستانوں کیلئے نکتہ آغاز بھی کہتے ہیں ایک بادشاہ نے سزا سے بچنے کیلئے ایک آدمی کے سا منے چند غلط کام رکھے جنمیں ایک نشہ،قتل اور دیگر جرائم شامل تھے اس شخص نے جان بچانے کی خاطراپنی سوچ بیچار کے بعد نشہ کو چھوٹا گناہ سمجھ کر وہ کرلیا بادشاہ ہنسا اور بولا اب دیکھنا کہ یہ نشہ میں دھت ہوکر قتل،ڈکیتی اور دیگر جرائم بھی خود بخود کرلے گا چونکہ نشئی پر نشہ سوار ہوجاتا ہے اور وہ اُس کو حاصل کرنے کیلئے کسی بھی عمل سے دریغ نہیں کرتا، اپنے گھر کی اشیاء فروخت کرتا ہے اورآخری حد تک جاتا ہے اسی لیئے یہ بہت قابل غور بات ہے اب تو یہ بیماری معاشرے میں اتنی سرایت کرچکی ہے کہ ہر طبقہ اور ہر گریڈ کے لوگوں میں نشئی بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔لیکن پوش سیکٹرز کے لوگ اپنے بچوں عزیزوں کا علاج مہنگے ترین اداروں اور ہسپتالوں سے کروالیتے ہیں اور غریب جو نشئی بن گیا تو سو بن گیا ناں اُس کا علاج فیملی سطح پر ممکن ہوتا ہے اور نہ ہی معاشرہ اس معاملے میں تعاون کیلئے تیار ہوتا ہے نہ ہی ایسے عمل کیلئے این جی اوز کی سطح پر کوئی کام نظر آرہا ہے اور خیر سے حکومت کے کیا کہنے یہ تو صرف وعدوں ،دعوں،تقریروں اور نعروں کے کام سے فارغ ہوگی تو وہ کچھ سوچے گی اوراپنے غموں سے فارغ ہونگے تو عوام کا غم کریں گے۔
قانون تو موجود ہے ،محکمے اور ادارے بھی لیکن عملی طور پر اس حوالے سے کام نہ ہونے کے برابر ہے اور تو اور تواتر سے یہ خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں کہ پولیس ہر مقام پر نہ صرف منشیات فروشوں کی سرپرست اور ہمدرد ہے بلکہ ضبط شدہ نشہ بھی منشیات فروشوں کے ہاتھوں فروخت کرتی ہے ۔کراچی سینٹرل جیل ہو یا اڈیالہ جیل ،لاہور کی جیل ہو یا پشاور کی کسی بھی سطح پر حقیقی معنوں میں تحقیقات ہوں تو اہل دنیا کے ہوش اُڑجائیں کہ ایسے کاروباروں کے پیچھے کتنے خوشنما چہرے یا تو خود موجود ہیں یا پھر اُن کے فرنٹ مین اسی لیے تو تھانوں کی بولیاں لگتی ہیں اور جیلروں کی تعیناتی کیلئے پیٹیوں کی پیٹیاں استعمال کی جاتی ہیں۔
مجھ سمیت آپ کو بھی آتے جاتے بے شمار لوگ سڑکوں ،چوکوں ،چوراہوں ،پلوں کے دائیں بائیں اور اڈوں پر ملیں گے جو لڑکھڑا کر چل رہے ہونگے اور وہ بھیک مانگ کر کچرا اُٹھا کر اپنی اس عادت کو پورا کرتے ہیں۔آج تو سکولوں اور کالجوں میں یہ بیماری ناسور کی طرح پھیل رہی ہے ۔سرکاری تو سرکاری پرائیویٹ اداروں میں تو یہ بیماری فیشن کے طور پر اپنائی جارہی ہے۔کاش کہ کوئی ان بیماریوں کے سد باب کیلئے غورکرے ۔ہم تو اب ایک بے حس معاشرے کی مانند ہیں اپنے آس پاس اور اڑوس پڑوس سے بلکل بے خبر ہیں ۔درد نام کی چیز اور احساس کی کیفیت ناپید ہوگئی ہے ۔حالانکہ ہم انسان ہیں اور انسانیت درد اور فکر کے مجموعے کا نام ہے ۔آج حکمران غافل ہیں لیکن رعایا تو اُن سے بھی زیادہ بے فکری ،سستی اور کاہلی کی چادر تان کر خواب خرگوش میں ہے۔
ہمارے ایک عزیز اس بیماری سے دوچار تھے کچھ بھائیوں نے مل جل کر اُنہیں علاج کیلئے ایک سینٹر میں چھوڑا ۔لیکن وہاں حد سے زیادہ سختی مارپیٹ اور تشدد سے تنگ آکر اُس نے دو منزلوں کے اوپر سے کودگیا، بچ گیا لیکن شدید زخمی ہوا اور بھاگ نکلا ۔تفتیش اور تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ ان سینٹروں میں نہ صرف تذلیل کی جاتی ہے بلکہ ایسا تشددکیا جاتا ہے کہ دشمن بھی ایسا نہ کرے۔ہم تو خوشنما نعروں ،خوبصورت پرنٹنگ کے حامل برشروں کو دیکھ کر قائل ہوئے تھے ۔لیکن ایسا ظلم کہ رونگٹے کھڑے ہوجائیں اور اہل خانہ کو رونے پر مجبور کردیں ۔مجھے تو لگا کہ کہیں یہ سینٹر بھی منشیات فروشوں کے قائم کردہ تو نہیں ہیں جو بظاہر علاج کے نام پر قائم ہیں، بھاری فیسیں مجبور و مظلوم اہل خانہ سے وصول کرتے ہیں اور پھر علاج کی جگہ تشدد کے ذریعے ایسے لوگوں کو اس گندگی میں دھکیلتے ہیں ۔میں تو تب بھی سوچ رہا تھا کہ کوئی ادارہ تو ضرور ایسا ہوگا کہ جو ایسے شتر بے مہار لوگوں کی باز پرس کرسکے کہ اتنی دیر میں لاہور کی ایک خوبصورت نوجوان عکاشہ ارسلان ہاشمی کی موت کی خبر نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ،نشہ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے ایک سینٹر کے بدمعاش اہلکاروں کی ذیتوں کے آگے عکاشہ جان کی بازی ہار گیا ۔ یہ خبر اور کراچی جیل کی خبر دونوں ہی ستمبر 2017 کے دوسرے اور تیسرے عشرے کی ہیں۔
عکاشہ ارسلان کے گھر اُس کی شادی کی تیاریاں جاری تھیں کہ علاج کی غرض سے اُسے ایک سینٹر میں داخل کرایا گیا ۔گھر والوں نے کلینک کی فیس کے علاوہ پچاس ہزار روپے اس کے کھانے پینے کے لیے کلینک والوں کو جمع کروائے اورناز و نعم میں پلے اس نوجوان کی خوراک کے خیال کی تاکید کی کہ اس کے کھانے پینے کا خیال رکھا جائے ۔اہل خانہ کے بقول وہ بالکل صحت مند تھا بس سگریٹ نوشی کو چھوڑنا چاہتا تھا. داخل ہونے کے تیسرے دن اس نے آٹھ بجے کے قریب پیزا مانگا. کلینک کے ایڈمنسٹریٹر نے پیزا منگوانے سے روکا. عکاشہ نے اصرار کیا کہ میرے گھر والے پچاس ہزار روپے میرے کھانے پینے کے لیے جمع کروا کر گئے ہیں. کلینک کا ایڈمنسٹریٹر عکاشہ سے بڑی سختی سے مخاطب ہوا اور اپنے ماتحتوں کو کہا کہ اس کی اچھی طرح دھلائی کرو. انہوں نے عکاشہ کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا. اس نے بھی مزاحمت کی. مار کھانے کے دوران عکاشہ نے کہا مجھے معاف کردو میں آپ لوگوں سے کوئی مطالبہ نہیں کروں گا. ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹر نے کہا کہ معافی ایسے نہیں ملے گی.
عکاشہ فرداً فرداً اس وقت لاؤنج میں ہر بندے کے پاس گیا اور معافی مانگی. کلینک کے ایڈمنسٹریٹر نے کہا کہ ہم سب کے پاؤں کو ہاتھ لگاو. عکاشہ نے کہا کہ یہ میں نہیں کرسکتا اب جو آپ لوگ مرضی کرلو. انہوں نے عکاشہ کو رسیوں سے باندھا اور ڈنڈوں، مکوں اور کہنیوں سے مار مار کر اس کی دس پسلیاں توڑ دیں، پھیپھڑوں اور جگر کو زخمی کردیا اور دماغ میں شدید ضربیں مار کر اس کو ماردیا. وہ پانی بھی مانگتا رہا. ظالموں نے اس کو پانی بھی نہیں پلایا. جب اس کی موت واقع ہوگئی تو کلینک والوں نے باقی مریضوں کو چھٹی کروا دی اور گھر والوں کو فون کر کے بتایا کہ عکاشہ کا اچانک سانس خراب ہوا اور وہ فوت ہوگیا. گھر والوں پر تو قیامت ٹوٹ پڑی. لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو وہ خون میں لت پت تھا اور سارے جسم پر شدید زخموں اور چوٹوں کے نشان تھے. سب سے زیادہ بڑی چوٹ اس کے سر پر لگی ہوئی تھی اور اس کا آدھا سر کھلا ہوا تھا . بعد میں جب مختلف چینلز پر یہ خبر چلی تو اس کے جاننے والے اسی کلینک کے مریض نے رابطہ کیا جو اس وقت اس سارے ظلم کے واقعہ کو دیکھ رہا تھا اور وہاں کلینک میں پورے واقعہ کی تفصیل بتائی. اب کلینک کا ایڈمنسٹریٹر اور چار دیگر مجرمان تھانہ ٹاون شپ لاہور میں بند ہیں. عکاشہ کے والدین کا سوچ کر رونا آ رہا ہے کہ ان پر کیا گزر رہی ہو گی.
اللہ اس کی مغفرت فرمائے اور اس کے وارثین کو صبر جمیل عطا فرمائے. اربابِ اختیار صرف پروٹوکول کے مزے لینے کے بجائے اس طرح کے واقعات کے ذمہ داران کو سخت سزا دیں تاکہ دوسروں کیلئے عبرت کا نشان بن سکیں اور ایسے اداروں پر قانون نافذ کیا جائے،وقتاً فوقتاً ان اداروں کو مانیٹر کیا جائے ۔کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ پوری قوم نشہ کی عادی بن جائے۔ دوسرا یہ کہ چرس، ہیروئین اور شراب وغیرہ کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے. ان کے ہاتھوں ہماری نوجوان نسل تباہ و برباد ہو رہی ہے. لاکھوں جوانیاں ان کے کالے کرتوتوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہیںیہ واقعات ہمارے لیے یہ سبق آموز ہیں ہے کہ ہم اپنی اولاد کی دین متین کے تحت بچپن سے ہی صحیح تربیت کریں، انہیں محبت، توجہ اور وقت دیں تاکہ ہمارے اور معاشرے کے بچے غلط صحبت میں پڑ کر ایسے برے کاموں پر نہ لگیں جن سے ان کی زندگی برباد ہووہ کہتے ہیں کہ اگر وقت پر ایک کام نہ کیا جائے تو بعد میں بہت تاخیر ہوجاتی ہے اور پھر اُس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔کیونکہ ۔لمحوں نے خطاء کی صدیوں نے سزا پائی۔