وفاقی وزیر مملکت برائے انسداد منشیات شہر یار آفریدی ایک بار پھر اپنی ایک متنازع تقریر کے ساتھ سوشل میڈیا و دیگر ذرائع ابلاغ میں تنقید کا نشانہ بنے۔ اپنے انتخابی حلقے میں پشتو میں کی گئی تقریر کا اردو ترجمہ ’سب ٹائٹل‘ میں بھی وائرل ہوا، پھر وہی ہوا جو ہمیشہ سے سوشل میڈیا میں ہوتا آیا ہے کہ وضاحت و الزامات کی بھرمار، جس میں وفاقی وزیر مملکت نے بھی حصہ ڈالا۔شہریار آفریدی نے جو کچھ پشتو میں کہا،اس کا ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے:’ہم ایک فیکٹری بنا رہے ہیں، عمران خان کی یہ خواہش ہے، ہم ہر سال ہیروئن، چرس اور افیُون بہت بڑی مقدار میں پکڑتے اور جلا دیتے ہیں، دوسرے ممالک میں ان سے دوائیں بنائی جاتی ہیں۔ اس کی فیکٹری پر کام شروع ہے، عمران خان کا ارادہ ہے، ہم یہ فیکٹری تیراہ میں لگائیں تاکہ ان علاقوں کے لوگوں کی زندگی بہتر ہو جائے۔‘ اس بیان پر وزیراعظم کی جانب سے تو کوئی ردعمل نہیں آیا لیکن سخت عوامی ردعمل کے بعد وزیرمملکت نے وائرل ویڈیو پر ردعمل میں کہا کہ”یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر جھوٹے الزامات کے ساتھ وائرل ہے، میں کوہاٹ میں اپنے قبائلی عوام کو بتارہا تھا کہ حکومت تیراہ اور دیگر قبائلی علاقوں میں نامیاتی(organic) دوائیں بنانے کے کارخانے لگائے گی“۔انہوں نے مزید کہا کہ”بھنگ سے بننے والے تیل (ہیمپ آئل) کی فیکٹریاں لگائیں گے، جس سے نوجوانوں کو روزگار ملے گا اور ملکی برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ لگتا ہے سیاسی مخالفین کے میڈیا سیل کے پاس اب جھوٹ بیچنے کے سوا کچھ نہیں بچا“۔
تحریک انصاف کی حکومت کو اپنی انتخابی منشور کے مطابق ایک کروڑ نوکریوں کی فراہمی پرتاخیر پراپوزیشن سخت تنقید کا نشانہ بناتی ہے، اس لئے چند سیکنڈ کی ویڈیو کلپ کو لے کر ملے جلے رجحان کے ساتھ اس موقع کو ضائع نہیں کیا گیا۔ شہریار آفریدی کی تقریر میں ”وزیراعظم کی خواہش“کے ذکر نے تنقید کی گرمی میں مزید اضافہ کردیا۔ متنازع تقریر پر وزیر اعظم کی جانب سے وضاحتی بیان آنا ضروری تھا، تاکہ الزامات کی فضا کو مزید مکدر ہونے سے روکا جاتا، کیونکہ عوام کو یہ جاننا ضروری ہے کہ مسکن، درد کش ادویات کی تیاری میں افیون کا استعمال بھی کیا جاتا ہے، خاص طور پر مارفین,ٹریماڈول,میتھاڈون,ڈایا مارفین,فینٹال,الفینٹال وغیرہ ڈاکٹری نسخے پر ہی فراہم کی جاتی ہیں،درد کش ادویہ میں پیراسٹامول، اسپرین،آئی بروفین اثر نہیں دکھاتیں، خاص طور پر سرجری،کینسر یا زندگی کے آخری ایام میں درد کی سخت تکلیف کو کم کرنے کے لئے مسکن ادویہ دی جاتی ہیں۔شہر یار آفریدی کے بیان پروزرات صحت کو اس حوالے سے وضاحت فراہم کرنی چاہیے تھی کہ پاکستان میں کتنی ایسی دوا ساز کمپنیاں موجود ہیں جو نامیاتی دوائیں تیار کرتی ہیں، کیا ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پاکستان میں عالمی قوانین ِصحت کے تحت پاکستان میں اس کی قسم کی ادویات تیار کرنے کی اجازت موجود ہے بھی یا نہیں۔بقول وزیر مملکت باقاعدہ کام شروع کردیا گیا ہے تو پارلیمنٹ کو اعتمادمیں کیوں نہیں لیا گیا۔ میڈیا کو بے خبر کیوں رکھا۔
المیہ ہے کہ بیشتر میڈیکل اسٹورز پر درد کش ادویات بغیر ڈاکٹری نسخے کے فروخت کی جاتی ہیں اورجعلی ادویات کی تیاری ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے، بیشتر میڈیکل اسٹورز پر دستیاب درد کش ادویہ و اتائی ڈاکٹرز کی وجہ سے جس طرح منشیات کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان موجود ہے، اس سے قانون نافذ کرنے والے ادارے بخوبی آگاہ ہیں۔ منشیات کے حوالے سے پڑوسی ملک میں پوست کی کاشت اور سمگلنگ کے باعث پوری دنیا کا آدھے سے زیادہ حصہ فراہم کئے جانا بذات خود سنگین عالمی مسئلہ ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں سمیت زرخیز زمینوں پر بھی پوست کی کاشت کی جاتی رہی ہے، جسے بڑی مشکل سے ختم کیا گیا، کہ اگر وفاقی وزیر نامیاتی دوائیوں کی تیاری کے کسی منصوبے کا ذکر کررہے ہیں تو اس کے مضمرات سے بھی عوام کو آگاہی ضروری تھی، بادی النظر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہیروئین، چرس اور افیُون کے ڈرگ مافیاز کے لئے سونے کی کان کو ٹھیکے میں دینے کی خوشخبری سنائی گئی ہو۔
درحقیقت کئی یورپی ممالک میں حکومتی سطح پر صحت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، تاہم امریکا میں عوام کو طبی انشورنس خود حاصل کرنی ہوتی ہے۔ ایشیا ئی ممالک کا حال تو بہت ہی بُرا ہے جب کہ یورپی و ترقی یافتہ ممالک میں بھی ڈاکٹری نسخے کے بغیر اوپائیڈ ادویہ با آسانی مل جاتی ہیں، ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 76لاکھ سے زاید افراد مختلف منشیات کے عادی افراد ہیں، ہر برس دنیا بھر میں ہزاروں افراد منشیات کے استعمال کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 27کروڑ سے زائدافراد منشیات کے عادی ہیں۔وفاقی وزیر مملکت برائے انسداد منشیات سینیٹ میں سینیٹر سراج الحق کے ایک سوال کے جواب میں اعتراف کرچکے ہیں کہ”2013کے بعد منشیات استعمال کرنے والوں کی کُل تعداد کا پاکستان میں سروے ہی نہیں ہوا، آخری سروے کے مطابق6.7ملین افراد منشیات کا استعمال کرتے تھے“۔
ایک اندازے کے مطابق80لاکھ سے زائد افراد جس میں 24لاکھ کے قریب بچے، منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔پاکستان میں افغان۔سوویت یونین جنگ کے بعد جس تیزی سے منشیات کلچر پھیلا اور موجودہ صورتحال میں جس طرح افغانستان و سرحدی علاقوں میں پوست کی کاشت اور ہر برس دنیا میں کروڑوں افراد کا اضافہ ہورہا ہے، کیا موصوف نے روزگار، ملکی برآمدات کے حوالے سے متنازعہ بیان دیتے ہوئے ادارک کیا تھا کہ اس قسم کی تقاریر سے عوام، بالخصوص نوجوانوں پر کیا مُضر اثرات رونما ہوسکتے ہیں۔
حکومتی ذمے داران کو نجی و عوامی تقاریب میں اس قسم کی گفتگو سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر جب وزیر اعظم کا نام لے کر ایسی تقریر منظر عام پر آئے جو عالمی سطح پر سبکی و شرمندگی کا سبب بنے۔ پاکستانی قبائلی علاقے پہلے ہی انتہا پسندی، دہشت گردی، غیر قانونی اسلحہ کی تیاری و منشیات کی تیاری کے حوالے سے منفی تاثرات کی زد میں رہتے ہیں، ان علاقوں میں بے روزگاری کے خاتمے، ان کے لئے کاروبار و ترقی کے وسائل کی فراہمی اور تعلیمی سہولیات دینے کے بجائے منشیات کے فروغ کے اقدامات کو فروغ دینے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟۔اس وقت قبائلی علاقوں کو وفاق و صوبہ خیبر پختونخوا کی جانب سے کئے جانے والے وعدوں پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت219میں واضح فرمایا ہے کہ ”خمر “ میں بڑا گناہ ہے، دنیاوی فائدے کے مقابلے میں نقصانات زیادہ ہیں۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ ﷺ میں کئی جگہوں پر سخت ممانعت کی گئی ہے کہ ہمیں چند دنیاوی مفاد کے خاطر بڑے گناہ (نقصانات) سے بچنے کی ضرورت پر زور دینا اور اجتناب کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہی معاشرے کے ہر فرد کے حق میں بہتر ہے۔