ادارہ منہاج القرآن کے چیرمین ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے الیکشن کمیشن کی تشکیل کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک آئینی پٹیشن داخل کی تھی۔ان کا موقف تھا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل میں چونکہ آئینی تقاضوں کو نظر انداز کیا گیا ہے لہذا سپریم کورٹ اس کا جائزہ لے کر اس کی تشکیلِ نو کا حکم تصا در فرمائے۔
الیکشن کمیشن پر بہت سی دوسری جماعتوں کو بھی تحفظات ہیں جن کا وہ گاہے بگاہے اظہار کرتی رہتی ہیں لہذا یہ کہنا کہ یہ صرف ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے ذاتی تحفظات ہیں درست نہیں ہے۔مسلم لیگ (ق) تحریکِ انصاف ، ایم کیو ایم،آل پاکستان مسلم لیگ اور کچھ دوسری جماعتوں کو بھی اسی طرح کے تحفظات ہیں جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کی حیثیت متنازعہ ہوتی جا رہی ہے لہذا ضروری تھا کہ اس متنازعہ سوال پر عدلیہ کی رائے لے لی جاتی تا کہ عام انتخابات کے بعد تنازعات سے جان چھوٹ جاتی۔ اس آئینی پٹیشن کے لئے ٨ (آٹھ) فروری کی تاریخ مقرر ہوئی تھی اور ہر شخص پر امید تھا کہ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی مستقل حل نکل آئے گا لیکن اس وقت سب کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب سپریم کورٹ نے ڈاکٹر علامہ طاہرا لقادری کی دوہری شہریت کا مسئلہ کھڑا کر ے۔
ان کی اہلیت کو چیلنج کر دیا۔پہلے دن کی شنوائی کے بعد سب کو یہی گمان تھا کہ سپریم کورٹ دو ہری شہریت کے بعد اسی آئینی موضوع پر واپس آجائے گی جس کے لئے یہ پٹیشن داخل کی گئی ہے لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ سپریم کورٹ کی سوئی دوہری شہریت پر ہی اٹک کر رہ گئی اور جس مقصد کے لئے یہ آئینی پٹیشن داخل کی گئی تھی اس پر دلائل دینے کی نوبت ہی نہ آسکی کیونکہ سپریم کورٹ نے ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کو اس موضو ع پر دلائل دینے کی اجازت ہی نہیں دی تھی۔اگر بات یہاں تک ہی رہتی تو شائد کسی بڑے تنازعے کا سبب نہ بنتی لیکن سپرم کورٹ نے یہ کہہ کر ڈاکٹر علامہ طاہرا لقادری غیر ملکی ہیں لہذا وہ اس طرح کی پٹیشن کا حق نہیں رکھتے۔
ماحول میں تلخی کا عنصر داخل کر دیا۔بہت سے آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے آئینِ پاکستان کی روح کو بری طرح سے مجروح کر دیا ہے کیونکہ آئین میں ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے جس کے مطابق کسی بھی دوہری شخصیت کے حامل شخص کی پٹیشن کے ساتھ اس طرح کا سلوک روا رکھا جائے۔اگر میں یہ کہوں کہ سوال گندم اور جواب چنا تھا تو غلط نہیں ہو گا۔سوال تھا الیکشن کمیشن کی تشکیل اور جواب تھا کہ پاکستان سے آپ کی وفاداری مشکوک ہے لہذا ہمیں بتایا جائے کہ آپ کس کے سیاسی ایجنڈے پر پاکستان تشریف لائے ہیں ؟عدالتیں تو تحمل اور بردباری کی علامت ہو تی ہیں۔سائل کو بڑے کھلے دل کے ساتھ سنتی ہیں اور اس کے آئینی حق کو کبھی بھی ذاتی انا کا مسئلہ نہیں بناتیں بلکہ جو قانون تقاضہ کرتا ہے اسی کے مطابق فیصلہ صادر کرتی ہیںلیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس طرح کا رویہ اس خاص پٹیشمیں میں نظر نہیں آ رہا تھا۔انتخابات سب کی ترجیح ہیں لہذا یہ کہنا کہ ڈاکٹر علامہ طاہرا لقادری کسی خفیہ ایجنڈے پر آئے ہیں عدالت کے شایانِ شان نہیں تھا۔
کتنا ہی اچھا ہوتا اگر اس ادارے کا نام بھی لے لیا جاتا جس کے اشارے پر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری اس طرح کا رویہ دکھا رہے تھے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا۔عدالتیں قیافوں،اندازوں، وسوسوں، اخباری تراشوں اور سنی سنائی باتوں پر فیصلے نہیں کرتیں بلکہ ٹھوس حقائق پر اپنے فیصلوں کی بنیادرکھتی دہیں۔میڈیا کے چند اینکرز اگر اس طرح کی ہوائیاں اڑاتے ہیں تو اس پر کسی کو کوئی حیرانگی نہیں ہوتی کیونکہ اس طرح کی ہوا ئیاں چھوڑنا ان کے پیشے کا تقاضہ ہوتا ہے ۔انھیںاسی طرح کی ہوائیوں سے اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانی مقصود ہوتی ہے ۔وہ سنسنی خیزی کو ہوا دے کر اپنی دوکانداری چمکاتے ہیں اسی لئے لوگ ان کی پیش کردہ ہوائیوں پر اعتبار نہیں کرتے کیونکہ وہ میڈیا کے رول سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔
یاد رہے کہ عدالتیں میڈیا گھر نہیں ہوتے بلکہ قانون و انصاف کے ادارے ہوتے ہیں جہاں پر ہربات حقا ئق کے آئینے میں دیکھی جاتی ہے اور پھر فیصلہ بھی انہی حقائق کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔عدالتوں کو افراد سے نہیں بلکہ قانون سے سروکار ہوتا ہے اور یہی عدلیہ کی پہچان ہو تی ہے اور کسی معا شرے میں اس پہچان کا زندہ رہنا معاشرے کی عظمت اور اس کے استحکام کی دلیل ہوتا ہے۔۔آئینِ پا کستان اپنے ہر شہری کو دوہری شہریت رکھنے کی اجازت دیتا ہے ۔دوہری شہریت رکھنے سے پاکستانی شہریت متاثر نہیں ہو تی ۔وہ اسی طرح پاکستان کا شہری رہتا ہے جس طرح دوہری شہریت لینے سے پہلے ہوتا ہے۔
Rehman Malik
دوہری شہریت پاکستانی شہریت کے ساتھ اضافی شہریت ہے جس سے پاکستانی شہریت ختم نہیں ہوتی۔وہ ہر حال میں پاکستانی ہوتا ہے اور کوئی بھی حکومتی منصب رکھ سکتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی بھی حکومتی منصب رکھنا آئینی لحاظ سے غیر آئینی نہیں ہوتا۔دوہری شہریت صرف پارلینٹ کا ممبر بننے پر قدغن لگاتی ہے۔ اس سلسلے میں رحمان ملک کی مثال ہماری سامنے ہے۔رحمان ملک کا تعلق شہرِ اقبال سے ہے لیکن ان کا ووٹ سندھ میں بنایا گیا تھا لہذا وہ سندھ سے ہی سینیٹر منتخب ہوئے اور وزارتِ داخلہ کا قلمدان سنبھال لیا۔ عدالتوں میں دوہری شہریت کا مسئلہ اٹھا تو اس کی زد میں رحمان ملک بھی آگئے جس کی وجہ سے انھیں سینیٹر کی نشست سے مستعفی ہونا پڑا کیونکہ دوہری شہریت کا حامل ہونے کی وجہ سے وہ پارلیمنٹ کا رکن بننے کے اہل نہیں تھے۔مستعفی ہونے کے بعد انھیں مشیرِ داخلہ مقرر کر دیا گیا اور اسی حیثیت میں ساری ایجنسیاں انھیں رپورٹ کرتی تھیں کیونکہ ساری ایجنسیاں انہی کے ماتحت تھیں۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں دوہری شہریت کا حامل ہونے کی وجہ سے رحمان ملک بھی غیر ملکی ہیں اور پاکستان سے ان کی وفاداری بھی مشکوک قرار پائی جانی چائیے تھی اور ایجنسیاں ان کے ماتحت نہیں ہونی چا ئیں تھیں لیکن رحمان ملک کے کیس میں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔انہیں ہر قسم کی اتھارٹی حاصل تھی۔
رحمان ملک نے چند ہفتوں کے انتظار کے بعد ایک دفعہ پھر سینیٹ کا انتخاب لڑا اور منتخب ہو کر سینیٹ کے رکن منتخب ہو گئے اور آج کل پھر وزیرِ داخلہ ہیں۔ان کی دوہری شہریت پر اب بھی سوالیہ نشان ہیں۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ وہ شخص جو دروغ گوئی سے کام لے کر پار لیمنٹ کا رکن بن جائے اور پارلیمنٹ کی نشست کی خاطر اپنی دوہری شہریت کو چھپا کر پوری قوم اور اس کے آئین سے غداری کا مرتکب ہو کیا وہ اس قابل ہے کہ اسے وزارتِ داخلہ کا منصب عطا کیا جائے؟ کیا اس کی نیت پر شک کرنا جائز نہیں ہے ؟ افسوس صد افسوس یہ سب کچھ سپریم کورٹ کی نگا ہوں کے سامنے ہو رہا ہے لیکن دوہری شہریت کے حامل ان مخصوص افراد سے کوئی باز پرس نہیں کی جا رہی۔
دوہری شہریت کا حامل ہوتے ہوئے اپنی شہریت کو چھپا نا اور دھوکہ دہی سے پارلیمنٹ کا رکن بننا انتہائی سنگین جرم ہے اور آئین ایسے افراد کو کسی بھی حکومتی عہدے کے قابل نہیں سمجھتا کیونکہ وہ آئین کی شق ٦٢ اور ٦٣ کی صریح خلاف ورزی کے مرتکب ہو تے ہیں۔ سپریم کورٹ کو تو ایسے افراد کے خلاف ازخود نوٹس لے کر انھیں فارغ کر دینا چائیے تھا کیونکہ آئین کی شق ٦٢ اور ٦٣ ا نھیں اس بات کی اجازت دیتی ہے۔ ڈاکٹر علامہ طاہرا لقادر ی نے کسی کو دھوکہ نہیں دیا بلکہ بر ملا کہا کہ وہ دوہری شہریت کے حامل ہیں کیونکہ آئین اس کی اجازت مرحمت فرماتا ہے۔قا لِ تعزیر ہیں وہ لوگ جو دوہری شہریت کی موجودگی میں دھوکے سے پارلیمنٹ کا رکن بنتے ہیں تا کہ کر ذاتی مقاصد کا حصول ممکن بنا سکیں۔ایسے افراد کی نیتوں پر شک کیا جانا چائیے اور انھیں عدالت کے کٹہر ے میں کھڑا کیا جانا چائیے کیونکہ ایسا کرنا آئین و قانون کی حکمر انی قائم کرنے کے مترا دف ہو گا۔ اس نیک کام پر پوری قوم عدلیہ کا ساتھ دے گی کیونکہ انھوں نے ایک غیر آئینی روا ئیت کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کیا ہو گا لیکن کسی خاص فرد کے آئینی حق کو محض اس وجہ سے شک و شبہ کی نظر سے دیکھنا کہ وہ شخص عدلیہ کو پسند نہیں ہے بالکل غلط ہے۔
کوئی ذی ہوش شہری اس طرح کے طرزِ عمل کو قبول نہیں کریگا کیونکہ ایسا کرنا قانون و انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہو تا ہے۔انصاف صرف کیا ہی نہیں جاتا بلکہ نظر بھی آتا ہے لیکن ا لیکشن کمیشن کی تشکیلِ نو کے حالیہ فیصلے میں یہ دونوں عوامل اکٹھے نظر نہیں آ رہے۔
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ( چیر مین پاکستان پیپلز ادبی فورم یو اے ای)