دبئی: شہزادی لطیفہ جیل نما گھر میں قید ہیں

Protest

Protest

دبئی (اصل میڈیا ڈیسک) دبئی کے حکمراں شیخ راشد المکتوم کی بیٹی شہزادی لطیفہ کا کہنا ہے کہ انہیں ایک مکان کے اندر یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے۔

دبئی کے حکمراں شیخ راشد المکتوم کی بیٹی شہزادی لطیفہ نے منگل سولہ فروری کو لیک ہونے والے اپنے ایک ویڈیو میں کہا ہے کہ انہیں ان کی مرضی کے خلاف دبئی کے ایک وسیع و عریض مکان میں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ شہزادی لطیفہ نے سن 2018 میں دبئی سے فرار ہونے کی ایک ناکام کوشش کی تھی۔

دوبئی کے حکمراں خاندان نے شہزادی لطیفہ کو بھارت کی مدد سے راستے ہی میں پکڑوا لیا تھا۔فرار کی اس ناکام کوشش کے بعد سے ہی ان کے بارے میں عوامی سطح پر کوئی بھی معلومات دستیاب نہیں تھیں اور ان کا یہ ویڈیو برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اور اسکائی نیوز نے منگل کے روز جاری کیا۔

بی سی سی نے اس ویڈیو کو نشر کرنے سے پہلے جو اقتباسات شائع کیے اس کے مطابق شہزادی لطیفہ کہتی ہیں، ”مجھے یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے اور اس وسیع رہائش گاہ کو ایک جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ سلاخوں سے اس کی تمام کھڑکیوں کو بند کر دیا گیا ہے، میں تو اپنی کھڑکی بھی نہیں کھول سکتی۔”

ان کا کہنا تھا کہ اس ویڈیو کو انہوں نے باتھ روم کے اندر شوٹ کیا کیونکہ وہی ایک ایسی جگہ تھی جہاں ان کی پرائیویسی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ موبائل فون کی مدد سے عمارت کے ایک باتھ روم میں انہوں نے یہ ویڈیو بنائی ہے۔

دبئی کے حکمراں شیخ محمد بن راشد المکتوم متحدہ عرب امارات کے وزیر اعظم اور نائب صدر بھی ہیں۔ اپنی بیٹی کے ساتھ مبینہ ایسے سلوک کے لیے انہیں سخت ردعمل کا بھی سامنا ہے۔ تاہم تازہ معاملے پر ابھی تک ان کی جانب سے کوئی رد عمل یا بیان سامنے نہیں آیا۔

اس سے قبل جب شہزادی لطیفہ نے اپنے والد پر مرضی کے خلاف انہیں زبردستی اپنے پاس رکھنے کا الزام عائد کیا تھا تب دبئی اور متحدہ عرب امارت کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ان کی بیٹی اہل خانہ کے ساتھ محفوظ ہے اور اس کا خیال رکھا جا رہا ہے۔

شہزادی کو رہا کرنے کے لیے دباؤ
سن 2018 میں جب شہزادی لطیفہ نے پہلی بار گھر سے فرار ہونے کی کوشش کی تھی تبھی اس واقعے نے بین الاقوامی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی تھی اور اس وقت سے ہی انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کی رہائی کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔

ان کی رہائی کے لیے جد و جہد کرنے والے ایک گروپ ‘دی فری لطیفہ’ کا کہنا ہے کہ اسی نے خفیہ طریقے سے ایک موبائل فون شہزادی لطیفہ تک پہنچایا تھا۔ اس مہم کے بانیوں میں سے ایک ڈیوڈ ہائی نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا کہ اس کیس کی وجہ سے متحدہ عرب امارات کی شبیہ خراب ہوئی ہے اور یہ تاثر قائم ہوا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پامالیوں کو نظر انداز کرتا ہے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن راٹس واچ کے اگزیکیٹو ڈائریکٹر کینیتھ راتھ نے متحدہ عرب امارت کی حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس کیس کو اب ختم کر دے۔ ان کا کہنا تھا، ”ایسا لگتا ہے جیسے ان کے والد، دبئی کے حکمراں، انہیں ایسی ذہنی اذیتوں سے نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بالآخر اس نے سب کچھ ترک کر دیا اور اپنی اس زندگی کو قبول کر لیا ہو جس پر ان کے باپ کا کنٹرول ہے۔”

گزشتہ برس برطانوی عدالت کے ایک جج نے کہا تھا کہ محمد بن راشد المکتوم نے اپنی بیٹی کو اغوا کرنے کا حکم دیا تھا۔ مکتوم کی ایک سابق اہلیہ شہزادی حیا بنت الحسین لندن میں اپنے دو بچوں کے ساتھ رہتی ہیں اور انہوں نے ہی اس سلسلے میں کیس درج کیا تھا۔

حیا بنت الحسین نے مکتوم پر اپنی پہلی شادی سے ہونے والی دو بیٹیوں، شمسہ اور لطیفہ کو، اغوا کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ شمسہ کو سن 2000 میں کیمبرج سے اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ صرف 18 برس کی تھیں اور انہیں متحدہ عرب امارات پہنچا دیا گیا تھا۔

شہزادی لطیفہ نے مکتوم کی قید سے دو بار فرار ہونے کی کوشش کی۔ پہلی بار 2002 میں کی تھی اور پھر 2018 میں یہی کوشش کی جب بھارتی سکیورٹی فورسز نے انہیں سمندر میں ایک کشتی سے گرفتار کر کے دبئی کے حوالے کر دیا تھا۔