دربار عالیہ کلیام شریف

 Khwaja Fazal ud Din Kalyami

Khwaja Fazal ud Din Kalyami

شہنشاہ ولایت، تاجدار فقراء امام عارفاں، حضرت خواجہ فضل الدین کلیامی 1223ء میں کلیام سیداں تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا حضرت خواجہ ذکاء الدین مومدی پور ضلع گجرات سے ہجرت کرکے کلیام سیداں میں آکر آباد ہوئے۔ آپ کا تعلق خاندان بنو ہاشم سے ہے۔

آپ سہام قریشی ہونے کے ناتے حضرت علی سے نسبی تعلق رکھتے ہیں۔ حضرت حافظ ذکاء الدین نے کلیام کے سہام قریشی خاندان میں شادی کی۔ ان کے ہاں تین بیٹے حافظ نور احمد، حافظ غلام رسول اور حضرت خواجہ فضل الدین کلیامی پیدا ہوئے۔ ان تینوں میں سے صرف حافظ نور احمد نے شادی کی۔دوسرے دونوں بھائیوں نے شادیاں نہیں کیں۔ آپ دینی علوم کے علاوہ دنیاوی علوم پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ خوش نویسی میں بھی بڑے ماہر تھے۔ علوم ظاہری میں بڑے بڑے علماء آپ کے سامنے بول نہ پاتے تھے۔ اصول یہ ہے کہ پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے۔ بڑے بڑے شیخ طریقت، قطب الاقطاب شہباز ولایت خود چل کر مرشد کامل کے پاس جاتے رہے، سالہا سال تک ان کی خدمت میں مصروف رہے۔ لیکن حضرت فضل الدین کلیامی کے لیے یہ اصول ہی بدل گیا۔ آپ کے دادا مرشد حضرت خواجہ سید مظہر علی شاہ چشتی صابری جلال آبادی نے اپنے خلیفہ حضرت خواجہ محمدشریف خان کو حکم دیا کہ کلیام کی بستی میں ایک ایسے بچے کی ولادت ہونے والی ہے جو اپنے وقت کا بلند مرتبہ ولی اللہ ہوگا۔ لہذا آپ کلیام چلے جائیں اور اس بچے کی ظاہری وباطنی تعلیم وتربیت کریں۔ مرشد کامل کا حکم سنتے ہی حضرت خواجہ محمد شریف خان دہلی سے روانہ ہوکر کلیام اعوان آباد آگئے۔ موضع کلیام سیدان سے موضع کلیام اعوان دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

آپ بڑے بھائی حافظ غلام رسول کے ساتھ کلیام اعوان آکر حضرت خواجہ محمد شریف سے تعلیم حاصل کرتے رہے۔ رفتہ رفتہ مرشد کامل کی محبت، توجہ اور کشش کے سبب اپنے بڑے بھائی حافظ غلام رسول کے ساتھ کلیام سیداں سے کلیام اعوان ہی مستقل طور پر آگئے اور عمر بھر مرشد کامل کی خدمت میں مصروف رہے۔ آپ سلسلہ چشتیہ صابریہ کے وہ عظیم اولیاء ہیں جس سے اس سلسلہ کو دنیا بھر میں فروغ حاصل ہوا آپ حضرت بابا فرید گنج شکر سے خصوصی نسبت رکھتے تھے اورآپ حضرت خواجہ علی احمد صابرکلیر شریف کی نسبت سے صابری کہلاتے ہیں۔حضرت فضل الدین کلیامی کا ایک عیدانامی مرید تھا اس کی شادی گولڑہ شریف میں ہوئی

Kalyam Sharif

Kalyam Sharif

اس لیے وہ گولڑہ شریف آیا جایا کرتا تھا۔ حضرت پیر مہر علی شاہ کے ماموں پیر سید فضل دین گولڑوی کو جب پتا چلا کہ عبداحضرت فضل الدین کلیامی کا مرید ہے اس وجہ سے عیدا کو محبت کی نگاہ سے دیکھتے اور شفقت فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ سید فضل دین قادری گولڑوی نے عیدا سے کہا ”سنا ہے تمہارے مرشد آج کل کلیام سے راولپنڈی آئے ہوئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے بھانجھے مہر علی شاہ، حال ہی میں ہندوستان سے ظاہری تعلیم مکمل کرکے لوٹے ہیں، کو ساتھ لے جاؤ اور ملاقات کرا دو۔ میری طرف سے دو روپے نقد اور دوکلو مصری لے جاؤ۔ نذرانہ پیش کرکے میرا سلام عرض کرنا، چنانچہ عیدا پیر مہر علی شاہ کو ساتھ لے کر راول پنڈی شہر میں تکیہ شاہ (نزد تھانہ وارث خان راولپنڈی) سرکلرروڈ پر حضرت فضل الدین کلیامی کے پاس پہنچا۔ دونوں نے سلام کیا۔ حضرت فضل دین گولڑوی کا سلام کا جواب دیا اور مزید کوئی بات نہ کی دونوں قریب بیٹھ گئے۔ آپ حاضرین سے گفتگو کررہے تھے۔ مگر مہر علی شاہ صاحب کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ نہ ہی حال احوال پوچھا۔ آپ کے مرید عیدا کے دل میں بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ حضرت نے شہزادہ گولڑہ کی طرف کوئی توجہ نہیں فرمائی۔ گولڑہ جاکر میری بے عزتی ہوگی۔ یہی سوچتے سوچتے نماز ظہر کا وقت ہوگیا۔ دونوں اجازت لے کر نماز پڑھنے چلے گئے۔ واپس آکر پھر دوزانو ہو کر بیٹھ گئے۔

مگر آپ نے کوئی توجہ نہ فرمائی۔ پھر عصر، مغرب اور عشاء سب نمازوں کیلئے اجازت لے کر جاتے اور واپس آتے رہے۔ عیدا اپنے اور پیر مہر علی شاہ صاحب کے لیے لنگر خانے سے لنگر لے آیا۔ پیر مہر علی شاہ نے دو لقمے کھا کر کھانا چھوڑ دیا۔ حد تو یہ کہ ان کے حصے میں کوئی بستر بھی نہ آیا۔ عیدا شرمندہ ہوا کہ میں عزت دار آدمی کو ساتھ لے کر آیا ہوں اور میری وجہ سے سید زادے بھی پریشان ہورہے ہیں۔ عیدا نے شاہ صاحب سے کہا، پیر صاحب آپ میرا کمبل اور پنا دھسہ جوڑ کر اوپر لے لیں۔ شاہ صاحب نے کہا۔ بابا چپ کر خاموشی سے سوجا۔ آج مجھے کوئی بات اچھی نہیں لگ رہی۔ صبح منہ اندھیرے پیر صاحب نے عیدا سے کہا بابا میں جارہا ہوں۔ تم ادھر ہی رہو۔ عیدا نے پوچھا حضرت اس وقت کہاں اور کیوں جا رہے ہیں۔ پیر مہر علی شاہ نے کہا میں شاہ چن چراغ کے پاس جا رہا ہوں۔ صبح کی نماز بھی وہی پڑھوں گا۔ سلام بھی کرنا ہے۔ تم ادھر ہی رہو۔ میں آجاؤں گا۔ پیر مہر علی شاہ نماز پڑھنے چلے گئے۔

عیدا نماز پڑھ کر ان کا انتظار کرنے لگا۔ سورج نکل آیا مگر وہ نہ آئے۔ بالآخر عیدا خود وہاں پہنچا تو دیکھا کہ مزار کے صحن میں پیر صاحب بے سدھ پڑے ہیں۔ پگڑی کہیں اور دھسہ کہیں ہے۔ عیدا نے پگڑی اور دھسہ سنبھالا۔ اسی بے ہوشی کے عالم میں پیر صاحب کو اٹھایا اور تکیہ شاہو پہنچا۔ لوگوں نے پوچھا۔ بابا! کیا کرکے آگئے ہو؟ عیدا نے رو کر رات والا اور صبح والا واقعہ حضرت فضل الدین کلیامی کی خدمت میں عرض کیا۔ انھوں نے پیر مہر علی شاہ کے سر سے پاؤں تک ہاتھ پھیرا۔ وہ کلمہ پڑھ کر اٹھ بیٹھے۔ اس کے بعد حضرت فضل دین کلیامی نے دیوان حافظ کا ایک شعر پڑھا۔ پیر مہر علی شاہ زار وقطار رونے لگے۔ منہ سے کچھ بول نہ سکے۔ حضرت فضل دین کلیامی نے ان کے کندھے پر تھپکی دے کر دعا دی اور رخصت کیا۔ عیدا پیر مہر علی شاہ کو لے کر جب گولڑہ شریف پہنچا تو سارا ماجرا سنایا۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ عیدا سے کہا، تمہارے پیرکا اسوقت کوئی ثانی نہیں۔ تم خوش قسمت ہو۔ وہ میرے ہم نام ہیں اپنے نام کی لاج ضرور رکھیں گے۔ آپ کی عبادت وریاضت اور مجاہدے کا یہ حال تھا کہ زندگی بھر کبھی آپ کے جسم پر گوشت نہیں چڑھنے دیا اور نہ ہی کبھی سائے میں سوئے۔

آپ کا وصال 1308ء بمطابق یکم جنوری 1892ء بروز جمعتہ المبارک ہوا۔ نماز جنازہ حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی نے پڑھائی۔نماز جنازہ میں لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی کو گھوڑے پر سوار ہو کر صفیں درست کرانا پڑیں۔ آپا کا مزار اپنے پیر ومرشد حضرت محمد شریف خان کے قریب ہی ہے۔ آپ کا دس روزہ سالانہ عرس مبارک ہر سال 31دسمبر سے شروع ہوتا ہے اور 8جنوری تک اس عرس مبارک میں لاکھوں عقیدت مند دنیا بھر سے شریک ہوتے ہیں۔

M.A.TABASSUM

M.A.TABASSUM

تحریر: ایم اے تبسم (لاہور)
Email: matabassum81@gmail.com
,0300-4709102