خاک چمکتی ہے

Punjab University Hostel Canteen

Punjab University Hostel Canteen

تحریر: شاہ فیصل نعیم
یہ پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل کی کینٹین کا ایک منظر ہے، لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے، کسی کی روٹی کم پڑ گئی ہے، کوئی سالن کے لیے چلا رہا ہے، کوئی پانی منگوا رہا ہے اور کوئی ویٹر کو ٹِپ دیتے ہوئے کئی کئی باتیں سنا رہا ہے۔ میں کھانے کا آڈر دے چکا ہوں۔ وہ سوچوں کی نگری میں غرق میرے سامنے بیٹھا ہوا ہے۔ میں اُس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے شرارتًا کہتا ہوں: “کیوں بھائی انصر! کس کی یاد میں کھوئے ہوئے ہو؟ کوئی لڑکی کا معاملہ تو نہیں؟

وہ ہنستے ہوئے کہتا ہے : “نہیں شاہ جی ایسی کوئی بات نہیں “۔ “اچھا چلو بتاؤ ۔۔۔۔۔۔مستقبل میں کیا کرنے کا ارادہ ہے ۔۔۔۔۔۔ آپ گھر میں بڑے ہو ۔۔۔۔۔۔بہت سی ذمہ داریاں ہوں گی “؟ “شاہ جی ! حالات تو آپ کے سامنے ہی ہیں ۔۔۔۔۔۔ابا جی بھی ایک دن پوچھ رہے تھے کہ پترکتنی پڑھائی باقی رہ گئی ہے ؟ میں نے تو انہوں کہہ دیا کہ میں نے ابھی پانچ سے سات سال اور پڑھنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاہ جی ! مجھے ہر حال میں پوسٹ ڈاک کرنا ہے اور پی۔ایچ۔ڈی ۔ سے کم تو کسی صورت بھی مجھے منظور نہیں۔۔۔۔۔۔اس کے لیے چاہیے مجھے اپنا جسم ہی کیوں نا بیچنا پڑے ۔۔۔۔۔مگر میں پڑھوں گا ضرور”۔ مجھے لوگوں کے مقاصد جاننے کا بڑا شوق ہے عظیم عزائم جان کر میں بہت سرشار ہوتا ہوں ۔ میرا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے جب میں ہر طرح کی دنیاوی مشکلات کے باوجود بلند مقاصد پالنے والے لوگوں سے ملتا ہوں۔مگر آج انصر کا مقصد ، اُس کی اپنے مقصد کے ساتھ لگن اور اُسے پانے کی دھن کے بارے میں سن کر جہاں مجھے بے پناہ خوشی ہوئی وہاں ڈر بھی لگنے لگا۔

میں دل ہی دل میں کہہ رہاتھا: “انصر ! تیرے جیسے ہی انسان ہیں جو ۔۔۔۔۔میرے جیسے بے کاروں کی لاج رکھے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ تم ہی ہو جنہیں ہر پل کچھ نیا کرنے کی سوچ بے تاب رکھتی ہے “۔ کچھ عرصہ قبل کہے گئے اپنے الفاظ میں پھر دہرا رہاہوں: “بد بخت ہے وہ ذریتِ آدم جو ہر طرح کی آسائشات کے با وجود علم حاصل نا کرے “۔ میں یہ کہانی آپ کو ہر پہلوسے سناؤں گا۔ آپ نے میرے دوست کا مقصد جان لیا۔ ۔۔۔چلیں اب میں آپ کو اُس کی امارت کے بارے میں ایک واقعہ سنا تا ہوں۔۔۔۔۔۔کچھ کچھ اندازہ آپ کو ہو چکا ہو گا ۔۔۔۔۔۔اگر کوئی الجھن رہ گئی ہو تو اس واقعہ کے بعد نہیں رہے گی۔

یہ ایک سال پہلے کی بات ہے ۔ گرمی کا موسم ہے ، میں ہاسٹل کے کمرے میں بیٹھا کچھ کام کررہا ہوں اور وہ میرے سے کچھ فاصلے پر شرٹ اُتارے سویا ہوا ہے ۔اچانک میری نظر اُس کے جسم پر پڑتی ہے جہاں سیاہی مائل جسم پر کہیں کہیں سفیدی کے نشان نظر آتے ہیں۔ میں کافی دیر سوچتا رہتا ہوں کہ یہ پتا نہیں کوئی بیماری ہے یا کچھ اور۔پھر میں یہ سوچتے ہوئے کہ جب انصر اُٹھے گا تو پوچھ لوں گا ۔۔۔کام میں مصروف ہو جاتا ہوں۔ جب وہ اُٹھتا ہو تو میں گویا ہوتا ہوں: “یار انصر ! یہ تیرے جسم پر ہلکے ہلکے سفید نشان کیسے ہیں؟”
“شاہ جی ! یہ بچپن سے ہی پڑ گئے ہیں۔۔۔۔۔گھر میں اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کے صابن لا سکیں ۔۔۔۔۔تو پھر اماں کہتی تھی : “جاؤ پتر اونج ای نہا آو پانی نال” تو ہم نہا آیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔تو جہاں تک تک ہاتھ پہنچ جاتا وہاں سے کچھ کچھ میل اُتر جاتی اورباقی جمی رہتی تھی۔۔۔۔۔۔یہ نشان تب سے ہی چلے آرہے ہیں۔

Dust

Dust

یہ میرے دوست کے پاس موجود وسائل کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔اُس میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ احسان نہیں بھولتا وہ آج بھی کہتا ہے : “میں اپنے کزن کا احسان مند ہوں ۔۔۔۔جو مجھے پاکپتن سے کوسوں دور۔۔۔۔۔ایک گاؤں جہاں لوگ آج بھی سو سال ماضی میں جی رہے ہیں۔۔۔ اُس گاؤں کی گلیوں میں اُڑتی خاک میں خاک ہونے سے بچا کر لاہور لے آیا تا کہ میں کچھ بن سکوں”۔ اب اُس کی ذات کا ایک اور رخ دیکھیں۔ اس خاک سے اُٹھنے والے انسان کی بڑی سوچ اور اخلاق کا کیا عالم ہے۔اُس کی ذات میں کچھ ایسی جاذبیت ہے کہ جو بھی اُس سے ملتاہے اُسی کا ہوکر رہ جاتا ہے ۔ ہر کوئی اُسے اپنا دوست بنانا چاہتا ہے مگر اُس کی دریا دلی کا عالم یہ کہ وہ بغیر کسی امتیاز کے ہر کسی کا دوست ہے ۔ ایک دن وہ ڈیپارٹمنٹ کھڑا ہواتھا کہ ایک جونئیر لڑکی اُس کے پاس آتی ہے اور آکر کہتی ہے: “انصر بھائی ! مجھے واش روم جانا ہے مگر مجھے یہاں لڑکوں سے ڈر لگتا ہے ۔۔۔۔آپ مجھے وہاں تک چھوڑ دیں۔

یہ اُس کی اخلاقیات اور لوگوں کے اُس پر اعتماد کا عالم ہے۔ اب نتائج کی بات کرتے ہیں کہ یہ سب باتیں ہی ہیں یا ان کا حقیقت کی دنیا سے بھی کوئی تعلق ہے تو میں آپ کو بتا دو ں کہ اس تحریر کا خیالی دنیا سے کچھ لینا دینا نہیں۔ جو بڑی سوچ پالتا ہے، اپنے خوابوں کو پانے کی تگ ودو میں لگا رہتا ہے ، مخلوقِ خدا کے کام آتا ہے تو جان لو دنیا والو! خدا اُسے تنہا نہیں چھوڑتا۔۔۔۔۔انصر عروج کی منزلیں طے کرتا ہوا زندگی کی دوڑ میں زمانے سے بہت آگے نکل چکا ہے۔

آج کل اُس کا مسکن جرمنی ہے۔ مگر اُس کی باتوں سے لگتا ہے کہ اُس میں لگن ہے ستاروں سے آگے نکلنے کی جرمنی اُس کی تشنگی کے لیے کافی نہیں اُسے اورآگے بڑھنا ہے اس جہان پہ اپنا نقش چھوڑنا ہے۔ آج کل تو یہ شکایات عام ملتی ہیں، ہر کوئی تنگیِ حالات کا گلہ کرتا نظر آتاہے ، خدا نے مجھےیہ نہیں دیا ، خدا نے مجھے وہ نہیں دیا ، اگر میرے پاس وہ ہوتا تو میں یہ کر دیتا ، میں وہ کر دیتا ۔ دوستو! یہ کر دیتا ، وہ کردیتا ۔۔۔۔۔یہ سب باتیں ہیں کرنے والے۔۔۔شور نہیں مچاتے وہ تو کر دکھاتے ہیں۔۔۔اُن کا کام بولتا ہے۔ کیا آپ کے حالات میرے دوست سے بُرے ہیں؟ کیا آپ کےپاس بھی وہ سب کچھ نہیں ہے جو اُس کے پاس نہیں تھا؟ آپ چاہے کیسے بھی ہیں۔۔۔۔۔آپ کے حالات چاہے کتنے ہی خراب کیوں نا ہوں اپنے ذہن میں ایک سوچ کو جگہ ضرور دینا ۔ ایک ایسی سوچ جو آپ کو مرنے کے بعد زندہ رکھنے کے لیے کافی ہو۔

Shah Faisal Naeem

Shah Faisal Naeem

تحریر: شاہ فیصل نعیم