پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

Dictatorship

Dictatorship

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
ایوبی آمریت کے دور 1961 میں اپنے مادر علمی ڈاھرانوالہ ہائی سکول(جو اب ڈگری کالج ہے) کے کھیلوں کے گرائونڈ پر متعلقہ ریونیو افسر کی اشیر باد سے قابض ہو جانے والے قبضہ گروپوں سے جھگڑا ہو جانے کی وجہ سے چشتیاں تھانہ کی پولیس کی تھپڑوں کی اپنے معصوم چہرہ پر بارش برداشت کی کہ راقم نویں جماعت کا ہی تو طالب علم تھا۔

اس تشدد کی خبر کو بی بی سی لندن نے رپورٹ کیا۔ پچپن سال سے اب تک اپوزیشنی سیاست کے “مزے” لوٹتے لوٹتے اب توسچ کو اجاگر کیے اور جھوٹ کا بھانڈا پھوڑے بغیر دلِ ناتواں آرام سے نہیں بیٹھنے دیتا۔اس کی گواہی میرے ساتھی شیخ رشید احمد اور جاوید ہاشمی ضرور دیں گے جن کے ساتھ مل کرمیں نے نومبر 1976 میں ائیر مارشل اصغر خان کی سیاسی جماعت تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کی تھی۔ 1977 کے انتخابات میں قومی اتحاد کی طرف سے وزیر اعلیٰ پنجاب نواب صادق حسین قریشی کے خلاف بطور امیدوار نامزد ہوا اغوا کرکے پونے چار مہینے مارتے پیٹتے رہے میں ڈٹا رہا۔خود مسٹر بھٹومرحوم اور اس کے دیگر تین وزرائے اعلیٰ کی طرح وزیر اعلیٰ پنجاب بلا مقابلہ منتخب نہ ہو سکا۔

عشرت العباد کواٹھارہ سال قبل گورنر نامزد کیا گیا۔میں رحیم یار خان سے بہاولپور آتے ہوئے چنی گوٹھ سے گزر رہا تھا۔فوراً رکا اور پریس ریلیز جاری کی کہ گورنر کے قاتل کو گورنر نامزد کردیا گیاہے۔حکیم محمد سعید کی قتل کی ایف آئی آر میں عشرت العباد نامزد ملزم تھے۔دیگر بیسیوں مقدمات ہنگاموں دہشت گردا نہ سرگرمیوں کے بھی درج تھے۔خیر آمر مشرف کی نامزدگی تھی میرے علاوہ فوراً کوئی نہ بولا کہ اگلے روز اخبارات میں صرف میرا ہی احتجاجی بیان شائع ہوا۔ہر اقتدرا ہی کو ان کی اشد ضرورت رہی۔مشرف نے تو وکلاء تحریک کے دوران بر طرف شدہ چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری کے کراچی کے دورہ کو ناکام بنانے کا فریضہ اور خصوصی مشن انھی صاحب کے ذریعے پایہ تکمیل کو پہنچایا وکلاء جلا کر بھسم کرڈالے گئے۔

MQM

MQM

درجنوں افراد شہادتیں پاگئے اور سینکڑوں افراد شدید زخمی ہوئے پورے شہرکے راستوں کو کنٹینروں سے بند کردیا گیا تھا۔اور چیف صاحب ائیر پورٹ پر ہی 36گھنٹے یرغمال بنے بیٹھے رہے اور باہر قدم رنجا نہ فرما سکے شام کو ایک فنکشن اسلام آباد میں ڈکٹیٹر کی تقریردل پذیر نشر ہوئی اس نے مکے لہرا کر کہاکہ دیکھا ہماری طاقت اور قوم کے زخموں پر نمک پاشی کی ڈکٹیٹر نے این آر او کے ذریعے تقریباًاٹھارہ ہزار ایم کیو ایم اورپی پی پی کے چھ ہزار بڑے ملزمان کے اہم مقدمات یک قلم ختم کرڈالے تاکہ وہ باہر نکل کر بڑی وارداتوں میں مشغول ہوکر خلق خدا کے لیے قہر بن جائیں۔جب قاتل معصوم ٹھہر جائیں تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔زرداری صاحب مقتدر ہوئے تو فوراً 90پہنچ کر اپنے کردہ وناکردہ “گناہوں” کی معافی چاہی اور آئندہ مکمل تابعدرای کا عندیہ ایم کیو ایم کو دیا ۔اب تین سال سے نواز شریف صاحب نے بھی کسی قسم کا پھڈا کرنا مناسب نہ سمجھا ایسا کیوں کیا گیا کسی کو سمجھ نہیں آتی۔

اب لیڈر اِن لندن کے پاکستان مردہ باد کے نعروںکے بعد کئی ایم کیو ایم بننے پر شاید ان گورنر صاحب کی کوئی افادیت حکمران جماعت اور انٹیلی جنس اداروں کو محسوس نہ ہوتی ہو گی کہ ان کا بستر گول کر ڈالا گیا۔مگر کمال ہے گورنر موصوف کااور ان کی چالاکیاں اور پھرتیاں دیکھیں کہ اٹھارہ سال تک دوہری شہریت رکھنے والا راز اور پنڈورا باکس کسی سے وانہ ہو سکا۔سیکورٹی ادارے ،پولیس ،رینجرز و دیگر ایجنسیاں آخر کیوں یہ راز نہ پاسکیں یہ عجوبہ رو زگار معمہ شاید کبھی حل نہ ہو سکے جو کہ تمام حکمرانوں کے منہ پر تھپڑ کے متراد ف ہے ۔ اور اب جب کہ ودہری شہریت کاپتہ چل ہی گیا ہے تو پھر انھیں باہر کیسے جانے دیا گیا آئین پاکستان تو دوہری شہریت والوں کو ایسی اہم پوسٹوں پر تعینات رہنے کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔یہ اتنا عرصہ سبھی حکمرانوں اور انٹیلی جینس اداروں کو” پُھدو” بنا کر اب اپنے اصلی اور وڈے آقا مشرف کی ملاقات کا شرف حاصل کرنے باہر جا پہنچے ہیں۔

Ishrat ul Ebad

Ishrat ul Ebad

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔کہ انہوں نے ہی گورنر بھرتی کیا تھااٹھارہ سال تک جو مراعات سرکاری خزانہ سے وصول کرتے رہے وہ ان سے واپس لینا کسی نو منتخب صدر امریکہ ٹرمپ کا کام ہے یا ہمارے حکومتی اداروں کا؟پرویز مشرف بھی بیماریوں کابہانہ کرکے سبھی کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اور پاکستانی عدالتوں کو “ٹھوٹھا “دکھا کربھاگ نکلے تھے۔اسی طرح عشرت صاحب آج بر طرف ہوئے اگلے روزبیرون ملک چل دیے نہ گرفتاری نہ احتساب ۔جھوٹ بول کر اتنا عرصہ گورنر ہائوس پر قابض رہے۔نہ آئین کی 62,63ان پر لگی ہے کہ سبھی کے ” پسندیدہ” جو رہے تھے۔

آئینی وملکی قوانین تو صرف مرغی چور جیسے ملزمان کے لیے ہی ہیں کسی بھتہ خور مافیا ،ملک دشمنی کے نعرے لگانے ،اغوا برائے تاوان وصول کرنے والوں دہشت گردوں کا اس نظام میں کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا کہ کوئی مودی کا یار ہے تو کوئی یہودیوں کا رشتہ دار کوئی گریٹر بلوچستان کا حامی تو کوئی سندھو دیش بنانے کا دعوے دارکوئی جناح پور بنانا چاہتا ہے تو کوئی پختونستان کے لیے نعرہ زن اور یہ سبھی مقتدر بھی ہیں اور اپنے اپنے مشنوں کی تکمیل کے لیے کوشاں تو ادھر توجہ کون کرے؟جب تک خود کشیاں خود سوزیاں کرتے لاچار وبے کس انسان اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ،خاتم النبین کے درود پاک کا وردر کرتے تحریک کی صورت میں نکل کر بذریعہ بیلٹ ان زرداروں و نیم غداروں سے اقتدار کی باگیں چھین نہیں لیتے یہ سلسلے یو نہی چلتے رہیں گے مگر خدائے عز وجل کی کبریائی نے جلدی معصوم قوم کی چیخ و پکار پر ایکشن لے لیا تو پھر سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا۔

Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری