دھمکیوں کے باعث ڈچ سفارتی عملہ پاکستان چھوڑ گیا

Protest

Protest

اسلام آباد (جیوڈیسک) ہالینڈ نے پاکستان میں تعینات سفارتی عملے کے ارکان کو سیکورٹی کے پیش نظر واپس بلا لیا ہے۔ ڈچ حکومت نے یہ قدم آسیہ بی بی کے وکیل کو پناہ دینے پر انتہا پسندوں کی طرف سے دی گئی دھمکیوں کے بعد اٹھایا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ڈچ حکومت کے حوالے سے تصدیق کر دی ہے کہ پاکستان میں تعینات ڈچ سفارتی عملے کے ارکان کو واپس بلا لیا گیا ہے۔ اس کی وجہ وہ ممکنہ دھمکیاں بنیں، جو آسیہ بی بی کے وکیل کو ہالینڈ میں پناہ دیے جانے کے بعد سے دی جا رہی ہیں۔

قریب ایک دہائی قبل پاکستان میں توہین مذہب کے جرم میں سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی ملکی سپریم کورٹ کی طرف سے بریت کے بعد پاکستان میں بھر میں احتجاج کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا، جبکہ کچھ انتہا پسندوں نے تو یہ فیصلہ سنانے والے ججوں کے لیے قتل کا فتویٰ بھی جاری کر دیا تھا۔

اسی تناظر میں ڈچ وزیر خارجہ سٹیف بلوک نے ہالینڈ کے سرکاری ریڈیو این پی او سے گفتگو میں کہا، ’’بدقمستی سے ہالینڈ اور ڈچ سفارتکاروں کو دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔ میں نے اس معاملے پر پاکستانی ساتھیوں سے بھی گفتگو کی ہے۔‘‘

ڈچ وزیر خارجہ بلوک نے کہا کہ انہی دھمکیوں کی وجہ سے پیر کے دن اسلام آباد میں ڈچ سفارتخانہ کچھ دیر کے لیے بند بھی کرنا پڑا اور سفارتی عملے کی بڑی تعداد واپس ہالینڈ بلا لی گئی ہے۔ جمعے کے دن ڈچ سفارتخانے نے اپنا معمول کا کام روک دیا تھا، جس کی وجہ ’ایسے حالات بنے جو قابو سے باہر ہو گئے تھے‘۔

آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک اپنی مؤکلہ کی رہائی کے فیصلے کے فوری بعد ہالینڈ چلے گئے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ جان سے مار دیے جانے کی دھمکیوں کی وجہ سے وہ جلا وطنی اختیار کر رہے ہیں۔ ادھر ڈچ حکومت نے کہا ہے کہ سیف الملوک کو ہالینڈ میں عارضی طور پر پناہ دے دی گئی ہے۔

ترپن سالہ آسیہ بی بی پر کو سن دو ہزار دس میں توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ تاہم وہ اس الزام کو ہمیشہ ہی مسترد کرتی رہیں۔ ایک طویل عدالتی کارروائی کے بعد آخر کار ملکی سپریم کورٹ نے اکتیس اکتوبر کو آسیہ بی بی کی سزائے موت کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ اس کے بعد ملک بھر میں ایک تناؤ کی کیفیت پیدا ہو گی تھی، جو وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتی جا رہی ہے۔