آج بڑے زور و شور سے یہ آواز ہ بلند ہے کہ’ انسانی سماج میں ‘عورتیں ‘ایک مظلوم ترین ہستی ہیں۔ دنیا ئے مظالم کے بڑے بڑے پہاڑ ان پر تو ڑے جاتے ہیں اور انھیں اس طرح تشددکا نشانہ بنایا جاتا ہے جیسے وہ کوئی بے حس مخلوق ہوں۔’اخبارات و رسائل کے جرائم نامے اس طرح کی وارداتوں سے سیاہ ہوتے ہیں۔ جنھیں پڑھ کر ایک اضطراب سا پھیل جاتا ہے اور کچھ کمزور لوگ سینہ پکڑ لیتے ہیں ‘ہائے اللہ ! یہ بھی ہوگیا۔ شوہر نے بیوی کو مارا۔ ساس نے بہو پر ظلم کیا۔ بھائی نے بہن کو رنج پہنچایا وغیرہ۔
حالانکہ یہ آوازہ اور خبریں حقیقت سے کہیں زیادہ افواہوں،غلط فہمیوں اور غیر یقینی باتوں پرمشتمل ہوتی ہیں،ان کا اصلیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ رائی کا پہاڑ یہاں بناکر پیش کیا جاتا ہے اور افسانوں کو حقیقت کا روپ دیا جاتا ہے۔ تاہم کلی طور پرتو اس کے عدم سے انکار نہیں اس لیے کہ نئے عہد میں ایسی انسانیت سوز باتوں کا جواز ہی نہیں ہے لیکن اگر کہیں ایسا ہوتا بھی ہے تو ہمیں بزرگوں کی کہاوت کہ’ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے’ کو یاد رکھنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ تالی پہلے کس نے بجائی ،بجی ہی کیوں اور اگر بجی بھی ہے تو زیادہ زور سے کس نے بجائی ہے؟قصورضرور ہوگا ۔کسی جانب سے تالی بجتی ہے ،آواز باہر تک آتی ہے اور پھر اس کا افسانہ بنتا ہے ۔خیر یہ ہنگامہ آرائی یوں ہی نہیں ہوتی اس کے کچھ اسبا بھی ہوتے ہیں اور اسباب کے حل بھی ہوتے ہیں۔
اسباب: بالعموم عورتوں پر جہاں تشدد یا مظالم ہوتے ہیں وہ اں جو اسباب کار فرماں ہوتے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں : (1)عورت شوہر کے احکامات کو ظلم تصور کر تی ہے۔ (2)اس کے خاندان کے اصولوں اور ضابطوں کو توڑنے کی تگ و دو میں رہتی ہے۔ (3)گھر کے چھوٹے بڑوں کا کام کر نا وہ ناانصافی اور غیر مناسب سمجھتی ہے۔ (4)اگر کو ئی اس سے اس کی اس روش کا سبب پوچھے تو اول فول بکنے لگتی ہے۔ (5)بزرگوں کی خدمت کو سعادت نہیں بلکہ ظلم جانتی ہے۔ (6)اپنے ازدواجی فرائض کی ادائے گی میں غفلت کرتی ہے۔ (7)شوہرکی محنت سے زیادہ اپنی محنتوں کو بڑا بتاتی ہے۔ (8)اپنے شوہر کی خون پسینے کی کمائی کو بے دریغ اڑاتی ہیں اور اس کے احسانوں پر پانی پھیر دیتی ہیں۔ (9)شوہرسے دو بدو ہو کر سخت تیوروں میں بات کر تی ہے اور ادنی و اعلا کے فرق کی دھجیاں اڑادیتی ہے۔ (10) گھر کے اصولوں کے بر خلاف کام کر تی ہے اور اس دروازے کو توڑتی ہے جو عزتوں کا محافظ ہوتا ہے۔
یہ وہ اسباب ہیں جو ہرایسے گھر کی شکایت ہوتے ہیں جہاں پر خلفشار برپا ہوتا ہے اور جن کی بنا پر عورت کو مستحق سزا مانا جاتا ہے۔ کہیں کہیں اس سزامیں شدت آجاتی ہے جو ظلم بن جاتی ہے اور’ فتنہ پر ور ہمدرد’ گھروں کی باتوں کو دنیا میں پھیلا دیتے ہیں۔اس طرح دنیا میں ایک زہر سا پھیل جاتا ہے۔ جب اس طرح کی تنائو پیدا کر نے والی، غیر معاشرتی، غیرتہذیبی، بدنامی کا سبب بننے والی اور غارت امن حرکات ظہور میں آتی ہیں تو ایسی عورتوں کو سبق سکھانے کے لیے مختلف طریقے آزمائے جاتے ہیں۔ آواز بلند ہوتی ہے تو تماشا دیکھنے والے آجاتے ہیں اور کچھ نادیدہ ہمدرد عورت کو اہل خانہ و شوہر کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر نے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔
Allah
کچھ عورتیں ان کی باتوں میں آجاتی ہیں اور خانہ خراب کر لیتی ہیں۔ آواز گھر سے نکل جاتی ہے، پھر کہاں کہاں جاتی ہے خدا معلوم مگر اس کی دھمک تمام معاشرو ںمیں سنائی دیتی ہے۔ حالانکہ اس کا یہ حل نہیں ہے۔ حل تو وہ ہے جو مقدس کتابوں اور خداکے بندو ںنے بتائے ہیں۔
حل: ایک بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ مذاہب اور معاشروں نے عورت اور مرد کو زندگی کے کچھ اصول بتائے ہیں، کچھ فرائض دونوں پر عائد کیے ہیں اور ضابطوں کی شکل میں کچھ نازک بندھن ان کے گرد لپیٹے ہیں ۔جو اس وقت تک ان کی عزت، وقار، لحاظ،ادب، سلامی اور بھر م باقی رکھتے ہیں جب تک وہ دونوں انھیں نبھاتے رہتے ہیں اور ان کا ہر گام پر خیال رکھتے ہیں۔ پھر جہاں ان سے روگردانی کی اور من مانی کی قینچیوں ان کے دائروں کو کاٹ دیا گیا وہاں بربادیاں اور تباہیاں بر پا ہو جاتی ہیں۔
٭ معاشروں میں ایسی عورتیں بھی ہیں جن کی عظمت کو وہ لوگ بھی تسلیم کر تے ہیں جن سے ان کا دو ر کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ ان کی تعریف کر تے ہیں،ان کی سلیقہ مندی اور گھر گرہستی میں خوشگوار ماحول پیدا کر نے پر ان کی مداح ہوتے ہیں۔ انھیں’ محترمہ اور خاتون ‘ جیسے محترم لفظوں سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ عورتیں اپنے گھروں کو جنت بنا کر رکھتی ہیں اور گھر سے باہر نکل کر انسانیت کی خدمت کرتی ہیں۔ان سے کوئی کچھ نہیں کہتا اور نہ ہی ان پرظلم ہوتا ہے بلکہ اکثر یہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بد معاش سے بدمعاش انسان بھی اسے سلام کر تا ہے۔ایسی عورتوں کے کرداروں اور ان کی زندگیوںکی خوشبوئوں سے گندے ماحولوں کو معطر کر نا چاہیے۔
٭ایک عورت اگر اپنے ازدواجی فرائض ادا کرتی رہے اور اس سے پہلے کہ گھر کا کوئی فردحکم یا ہدایت دے، اس کی آرزو پوری ہوجائے،اس طرح کی ادائیں خوشگوار زندگی کی ضامن ہیں اور پر امن معاشروں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
٭ جس طرح گہنے، ہار،ایرنگ، تعویذ، پازیب وغیرہ عورتوں کے زیور ہیں اسی طرح گھر کے بڑوں کا ادب اورچھوٹوں پر شفقت، گھر کے اصولوں اور ضابطوں کی حفاظت بھی زیورات ہیں جن کی سجاوٹ سے سارا گھر جگمگاتا ہے۔
٭کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ’جہان نسواں’ میں یہ دو زوائیے کیوں ہیں ؟کیوں ایک طرف عورتیں فخر انسانیت، منظور الہٰی اور دیوی بن کرپوجی جاتی ہیں اور ایک طرف ایسی ہی عورتوں پر ظلم ہوتا ہے۔ انھیں ننگ انسانیت، خانہ خراب، باعث عار اور سماج کی دشمن کہا جاتا ہے۔ عورتیں ایسی بھی کیوں ہیں جو اپنے فرائض سے غافل ہوکر غیر مناسب اور شرمناک کارنامے انجام دیتی ہیں اور ایسی بھی ہیںجو باعث فخر اور انسانیت کے وقار کی بلندی کا سبب بنتی ہیں۔ جب آپ غور کریں گے توایک لامثال اور قابل عمل حل نکل کر سامنے آئے گا۔
مذکورہ بالا تمام حل معاشرتی اورانسانی نقطۂ نظر سے بیان ہوئے ہیں جن پر عمل کر نے سے کوئی بھی معاشرہ اور سماج بہتر بن سکتا ہے اور عورتوں پر ہونے والے مظالم کا تدارک بھی ایک بار عمل تو کر کے دیکھئے!۔