پاکستان میں سستے، شفاف اور جلد انصاف کی فراہمی بہت بڑا مسئلہ رہا ہے۔ برسہا برس تک مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت رہتے ہیں، تاہم ہمیشہ اس کی ضرورت رہی ہے کہ سائلین کو سستا اور جلد انصاف میسر آسکے۔ ملکی تاریخ میں اعلیٰ عدالتی اصلاحات میں انقلابی قدم کا آغاز 27مئی سے ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ نے جلد و سستے انصاف کی فراہمی کے لیے ای جوڈیشل سسٹم متعارف کرادیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس مقدمے کی سماعت ای جوڈیشل سسٹم سے کریں گے۔ ای جوڈیشل سسٹم پر کراچی کے کچھ مقدمات کی سماعت ہوگی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ اسلام آباد میں موجود ہوں گے۔ اعلامیے کے مطابق وکلا کراچی رجسٹری میں کمرہ? عدالت سے دلائل دیں گے، بینچ چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 ججز پر مشتمل ہوگا۔ سپریم کورٹ نے ویڈیو لنک کے ذریعے مقدمات کی سماعتوں کی فہرست بھی جاری کردی ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم بینچ ضمانت قبل از گرفتاری سمیت دیگر فوجداری اپیلوں کی سماعت کرے گا۔ وکلا اپنے دلائل بھی ویڈیو لنک کے ذریعے دیں گے، ابتدائی طور پر مقدمات کا آغاز صرف سپریم کورٹ اسلام آباد کی پرنسپل سیٹ سے ہوگا۔ سپریم کورٹ کے اس اقدام سے جہاں سائلین کو اپنے شہر میں ہی رہ کر عدالت عظمیٰ تک رسائی ہوجائے گی بلکہ وکلا بھی آنے جانے کے بھاری اخراجات سمیت قیمتی وقت کو بھی بچاسکیں گے۔
چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعیدکھوسہ نے فل کورٹ ریفرنس میں اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہوئے قوم کے سامنے عزم دہرایا تھا کہ ان کی ترجیحات میں ”جعلی مقدمات اور جھوٹے گواہوں کے خلاف ڈیم بنانا ہے۔” اس عزم کے ساتھ چیف جسٹس آف پاکستان نے عدالتی اصلاحات میں تبدیلی کا آغاز کردیا تھا۔ عموماً ملٹری کورٹس جلد مقدمات کا فیصلہ کرنے میں خصوصی اہمیت رکھتی ہیں۔ ملک کے موجودہ عدالتی نظام کے تحت زیر التوا مقدمات میں فیصلے کرنے میں ایک طویل عمل درکار ہوتا ہے۔ کبھی مدعی نہیں ہوتا تو کبھی ملزم پیش نہیں ہوپاتا، کبھی وکیل غیر حاضر ہوجاتے ہیں تو کبھی عدالت کی جانب سے کیس کی پیروی کی نئی تاریخ جاری ہوجاتی ہے۔ مقدمات کی طوالت کے لیے مدعی ہو یا مدعا علیہ یا پھر پولیس کی جانب سے چالان پیش کرنے میں انتہائی تاخیر کے سبب عدلیہ میں مقدمات کا بار بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ دوسری جانب مقدمات کے مقابلے میں ججوں کی تعداد کی کمی بھی حائل ہے اور ایک ایک جج کے پاس بے پناہ مقدمات ہوتے ہیں جو ایک ہی وقت میں چلائے جانا ممکن نہیں ہوتا۔ ان حالات میں ”ماڈل کورٹ” کا نظام متعارف کرایا گیا۔ قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی نے ملک بھر میں ضلعی سطح پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کو ضلعی سطح پر ماڈل کورٹس قائم کرنے اور ججز تعینات کرنے کی ہدایت کی۔ ماڈل کورٹس میں سیشن جج مقدمات کی سماعت کررہے ہیں۔ فوجداری مقدمہ کا فیصلہ 4 دن سے ایک ہفتہ میں کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ گواہوں کو لانے کی ذمے داری پولیس پر عائد کی گئی ہے۔ شواہد، بیان ویڈیو لنک پر بھی ریکارڈ کرنے کی منظوری سمیت ماڈل کورٹس کو ایک دن سے زیادہ فیصلہ محفوظ نہ رکھنے کا پابند کیا گیا ہے۔ ماڈل کورٹس کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کا حق ہوگا، ماڈل کورٹس میں مقدمات کو ملتوی نہیں کیا جائے گا۔
ایک رپورٹ کے مطابق عدلیہ نے گزشتہ سال 34 لاکھ، 86 ہزار مقدمات نمٹائے۔5 سال میں 1 کروڑ، 89 لاکھ نئے مقدمات دائر ہوئے تھے، جن میں سے ایک کروڑ، 88 لاکھ، 26 ہزار مقدمات کا فیصلہ کردیا گیا ۔ہے، اب عدلیہ میں زیر التوا مقدمات 18لاکھ 70 ہزار سے کم ہوکر 17 لاکھ، 25 ہزار ہوگئے ہیں۔ عدالتی اصلاحات کے حوالے سے ماڈل کورٹ اور اب ای جوڈیشل سسٹم کا قیام بہت بڑا انقلابی اقدام قرار دیا جارہا ہے۔ اس سے زیر التوا مقدمات میں مزید کمی کے ساتھ کئی معاملات کو بروقت حل بھی کرلیا جائے گا۔ واضح رہے کہ سب سے پہلے ملتان کے سیشن جج نے 2016میں ایک کورٹ کا افتتاح کرتے ہوئے ‘ویب کیم’ کے ذریعے سماعت کی تھی۔ اسی طرح ڈسٹرکٹ سیشن و سول جج حافظ آباد نے بھی جدید کورٹ کا آغاز کرکے سائلین کے لیے سہولت کا آغاز کیا تھا۔ نیز نومبر 2018 میں ایک قابل تعریف اقدام لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بھی کیا گیا۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد انوار الحق کی ہدایت پر بچوں سے متعلق مقدمات کی سماعت کے لیے شام کی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ شام کی پہلی عدالت میں فیملی کیسز اور بچوں کی حوالگی کے کیسز کی سماعت کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق بچوں کو عدالتوں میں پیش کیے جانے والے جرائم پیشہ عناصر کے اثرات سے بچانے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا۔ای جوڈیشل سسٹم کے قیام کے بعد امید پیدا ہوگئی ہے کہ سپریم کورٹ نے جس طرح سیاسی مقدمات کی حوصلہ شکنی کرکے عدالت عظمیٰ کو سیاسی اکھاڑا بننے سے روکا اور سیاست کے نام پر عدلیہ کو استعمال کرنے کی روش کے آگے بند باندھے، اسی طرح جعلی مقدمات اور جھوٹے گواہوں کے خلاف جدید اصلاحاتی پروگرام کا دائرہ کار مزید وسیع کریں گے۔ اگر کورٹ فیصلے میرٹ کی بنیاد پرجلد ہونے لگیں گے تو اس سے مقدمات کے ذریعے حق داروں و مظلوم سائلین کی دادرسی ہوگی۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے ایک انتہائی مثبت اقدام بھی کیا گیا ہے جو قابل تعریف ہے کہ ”سوموٹو” کے نام پر بے تحاشا مقدمات کا سلسلہ روک دیا ہے، کیونکہ اس طرح میڈیا میں تشہیر حاصل کرنے والے مقدمات کی وجہ سے برسہا برس سے زیر التوا مقدمات کی سماعت نہیں ہوپاتی تھی اور جج صاحبان کی پوری توجہ ازخود نوٹس مقدمات پر رہتی تھی۔ اس عمل میں یقینی طور پر فوری انصاف تو میسر آجاتا لیکن انصاف سب کے لیے عدالتی نظام کا پہلا فرض ہے۔ اعلیٰ عدالتوں میں غریب، متوسط طبقہ سستا انصاف حاصل نہیں کرسکتا، کیونکہ وکلا و مقدمات کے دیگر اخراجات اس قدر مہنگے ہوتے ہیں کہ غریب و متوسط طبقے کے لیے مقدمات کا سامنا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
اس وقت جوڈیشل مجسٹریٹ کے پاس بھی لاکھوں کی تعداد میں معمولی نوعیت کے جرائم کا انبار لگا ہوا ہے۔ جوڈیشل مجسٹریٹس کے لیے ان معمولی نوعیت کے جرائم کی سماعت میں غیر معمولی تاخیر سب سے پریشان کن مسئلہ ہے، کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ معمولی جرائم میں ملوث ملزمان کی سزا کی مدت پوری ہوجاتی ہے، لیکن مجسٹریٹ کے پاس مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ ان حالات میں ذاتی مشاہدہ ہے کہ ملزمان جیلوں سے آزادی کے لیے جرم کی قبول داری کرلیتے ہیں، تاکہ وہ سزا سے زائد عرصہ مزید جیلوں میں نہ گزاریں۔ اسی طرح جیلوں میں ڈسٹرکٹ جج صاحبان کے وزٹ کے وقت بھی متعدد درخواستیں دی جاتی ہیں، جن میں اکثر درخواستوں پر متوقع فیصلے کرکے جرمانے عائد کردیے جاتے ہیں۔ کچھ سماجی تنظیمیں جرمانے ادا کرکے معمولی جرائم کے قیدیوں کو آزاد کرادیتی ہیں، تاہم بیشتر قیدی جیل بھر میں چندہ جمع کرکے کسی نہ کسی طرح جرمانہ ادا کرکے جیل کی اذیت سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سمیت تمام جوڈیشری سے یہی اپیل کی جاتی رہی ہے کہ جیلوں کو یقینی معنوں میں اصلاح خانے بنانے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور تیزی سے زیر التوا مقدمات کو نمٹاتے ہوئے ای جوڈیشل سسٹم کے تحت سیشن عدالتوں کو جیلوں کے ساتھ بھی منسلک کردیا جائے۔ قیدیوں کی بہت بڑی تعداد بھی جیل سے ٹرانسپورٹ کی کمی کے باعث عدالت نہیں پہنچ پاتی یا دہشت گردی کے سنگین مقدمات زیر التوا رہتے ہیں، ان کی سماعت جیلوں میں ای جوڈیشل سسٹم کے تحت ہی ہو، تاکہ انصاف سستا اور جلد مل سکے۔