اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے ڈی ایچ اے کے اکاونٹس کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ ای او بی آئی میں کرپشن سے متعلق کیس کی سماعت کر رہا ہے، دوران سماعت ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے لیگل اعظم خان نے عدالت کو بتایا کہ ڈی ایچ اے نے 321 کنال اراضی پر مشتمل پلاٹس کے الاٹمنٹ لیٹر دئیے اور اس کے عوض ای او بی آئی نے 15 ارب کی ادائیگی کی۔
مقدمہ درج کرنے کی درخواست نہیں آئی، ڈی ایچ اے کے وکیل احمر بلال صوفی نے بتایا کہ ڈی ایچ اے نے اپنے موقف پر مبنی درخواست دائر کرنی ہے جس رقم کا اعظم خان ذکر کر رہے ہیں وہ رقم ڈی ایچ اے کے پاس موجود نہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے لوگوں کے پیسے اٹھا کر بحریہ ٹاون کو پکڑا دئیے۔ انہوں نے استفسار کیا۔
یہ معاہدہ کیس نے کیا جس پر احمر بلال صوفی نے بتایا کہ ڈی ایچ اے کے ایڈمنسٹر بریگیڈ فاطمی کے دستخط سے معاہدہ ہوا۔ ایک آرڈینسس آیا جس نے اس معاہدے کو تحفظ دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی ایچ اے نے کوئی ایسی ٹرانزکشن کر رکھی ہے جو بظاہر شفاف نہیں۔ آپ نے ساری رقم اٹھا کر بحریہ ٹاون کے حوالے کردی۔ ہمیں بتایا جائے کہ کس کے خلاف مقدمہ درج کرایا جائے اور کیس کو گرفتار کیا جائے۔
غریب لوگوں کا پیسہ داو پر لگا دیا گیا کسی کو احساس تک نہیں ہوا۔ افسروں کی تنخواہیں بند کر دیں، سب کام کریں گے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہر چیز ڈی ایچ اے کی ہے جو کوئی اور لے اڑا، ڈی ایچ اے کوئی کریانہ مرچنٹ نہیں، کیا۔
یہ اتنے ہی سادہ لوگ ہیں، سیکریٹری ای او بی آئی منیر قریشی نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے یکم جولائی سے عہدے کا چارج سنبھالا ہے۔کچھ ملزموں کے نام ای سی ایل میں ڈال دئیے ہیں جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ای سی ایل پر نام ڈالنا کوئی قانونی کاروائی نہیں، مقدمات درج ہونے چاہیں تھے۔