ہر حرف ٬ حرفِ بے اثر اس قوم پر (ملالہ)

Malala Yousafzai

Malala Yousafzai

شاہ بانو میر
چلتے ہو تو چمن کو چلئے سنتے ہیں کہ بہاراں ہیں
پات ہرے ہیں پھول کھِلے ہیں کم کم بادو باراں ہے

یہ شعر عرصہ دراز بعد آج نجانے ذہن کے کس نہاں گوشے سے اچھل کر اس وقت زقند بھر کر کسی شرارتی بچے کی طرح سامنے آگیا جب فیس بک ہو یا کوئی بھی ویب سائٹ یا ٹی وی چینل ہر کوئی رطب اللسان ہے

ملالہ ملالہ
نجانے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کا میڈیا ملالہ نامی کوئی ایسی ایجاد کر بیٹھا جس کے چھڑی گھماتے ہی یہ ملک اجڑے ہوئے گلستان سے سر سبز لالہ زار میں تبدیل ہو جائے گا ٬
یا اللہ
ٌمیری قوم کا مزاج بدل دے ٬
ہدایت کے لئے تنازعات میں گھِری یہ قوم اعتراضات کر کر کے ہدایت کو دوسری طرف رُخ مُوڑنے پے مجبور کر دینے والی اس قوم کو کوئی بھی سوچ جو ملکہ ابلیس کی جانب سے ملے تو بغیر کسی تحقیق کے اس سے عالم بھی فاضل بھی عاقل بھی بالغ بھی فیض یاب ہوں گے اور اس کو آگے اور آگے پھیلانا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں ـ

بدنصیبی سے اُس وقت میری قوم کا فرقہ بھی ایک اور مذہب بھی ایک بن جاتا ہے ٬ جہاں یہ حال ہو بیمار ذہنوں!! کا وہاں کسی مثبت سوچ کا ابھرنا اور پھر اُسے منوانا کسی کرامت سے کم نہی ہو سکتا ٬ ملالہ پر کچھ تحریر کرنے کی کوشش بھی شائد اپنی قوم اور دانشوروں کے آگے ویسے ہی ہے جیسے “” بھیس کے آگے بین بجانا “” لیکن “” مجھے ہے حُکم ِ اذاں “” کے مِصداق لکھنا ہی ہے ـ

ملالہ کیا ہے؟ کیوں اتنا شور و غوغا کیا جا رہا ہے؟ میڈیا ایڑہی سے چوٹی تک کا زور اس کی اشتہاری مہم پے کس بیرونی آقا کو خوش کرنے کے لیے کیوں لگا رہا ہے؟ کیا کیا ہے اس نے؟ ہمیشہ جب کوئی ایسی غیر ملکی پراڈکٹ اس ملک میں نئے پیپر میں ملفوف کر کے متعارف کروائی جاتی ہے تو دیگر چند مخصوص ہستیوں کے محترمہ فرزانہ باری صاحبہ ہزاروں روپے کا خرچ برداشت کر کے ہمیشہ ایسے خاص مواقع پے دکھائی دیتی ہیں ٬

ان کو دیکھتے ہی کبھی نہیں لگا کہ یہ پاکستانی شہری ہیں ٬ ان کی سوچ انداز آواز نظریہ ہمیشہ غیر ملکی سانچے میں مخصوص ساخت میں دکھائی دیتا ہے٬

ہمیشہ صبر کے گھونٹ بھر کر رہ جاتی ہوں لیکن آج لب کشائی کرنی ہے
کیونکہ
ایسی ہستیاں جو قرآن کے فہم سے لا تعلق ہیں ٬ انہیں کوئی حق نہیں ہے کہ اس پاکیزہ کتاب کا حوالہ محض اپنی شخصیت کا رعب طاری کرنے کے لئے دیں ٬ کچھ لوگ جو براہ راست قرآن کو سمجھ رہے ہیں وہ اس وقت پیچ و تاب کھا کر رہ جاتے ہیں کہ زمانے بھر کی معلومات رکھنے والے چرب زبان اینکر حضرات اس جیسی خواتین کو چُپ اس لئے نہی کروا سکتے کہ وہ خود بھی کہاں جانتے ہی کہ یہ جو کہہ رہی ہی وہ درست ہے یا غلط ؟
فرزانہ باری کہتی ہیں کہ قرآن میں مرد عورت کو برابری کی سطح پے رکھا گیا ہے٬ دلیل یہ دی کہ
ہم تو اس اسلام کو جانتے جو عربی عجمی کا فرق مٹانے والا ہے ٬

Muslim Men and Women

Muslim Men and Women

بی بی
یہ فرق آپﷺ نے مٹایا
قرآن میں مرد کو عورت پے ٬٬٬ قوام٬٬٬٬ یعنی نگہبان کہا گیا ٬ آسان دلیل یہ بھی ہے کہ گواہی کے لیے ایک مرد جبکہ عورت کے لئے تعداد 2 مقرر کی گئی ٬ عورت کا نان نفقہ گھریلو ذمہ داریاں سب عورت کے لئے اور عورت کا بچوں کا خرچ اس کے شوہر کے سپرد کر دیا گیا٬
اصل میں ان کو ملالہ کے لئے غیر ملکی اقدمات کو مؤثر صورت میں پیش کرنے کے لئے فرزانہ جیسی خواتین کا سامنے آنا ضروری ہے٬
اپنے ہی ملک میں کسی کو نفرت کا نشان بنانا ہو تو اس کے لئے ان ممالک کا نام کسی کے ساتھ جوڑ دیں وہ ویسے ہی قابل نفرت بن جائے گا اس وقت ایسا نام ملالہ کا ہے٬

ملالہ جیسے کئی نام ہیں جو آج کہیں زہر کا ٹیکہ لگوا کے قبر میں ابدی نیند سو رہے ہیں تو کہیں ٬ سمندر میں غرقاب کر کے نشانِ عبرت بنا دیے گئے ہیں ٬ کہیں انہیں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا مجرم بنا کر ان کے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر انہیں پھانسی دے دی گئی ٬
اور وہاں کا تمام ثقافتی ورثہ اور تمام علمی خزانہ لوٹ کرکئی نسلوں تک جہالت کا تحفہ ان کے بڑوں کی وفاداری کے پاداش میں تحفة دیا گیا ٬
آج اس سے بڑا ظلم ہم اور کیا کر سکتے ہیں کہ اس ملک میں آج ہر طرف جھوٹ کا عملی دور نافذ ہے ـ اکثر ادارے جھوٹے ٬ شخصیات عہدے جھوٹے ٬ صرف زبانی جمع خرچ اور جھوٹی واہ واہ
ہم ایسی کمزور قوم ہیں کہ اپنی مٹی کی سوندھی خوشبو کو غیر ملکی عِطر یا پرفیوم میں کھو بیٹھے ٬ لپک لپک کر مصنوعی خوشبو کی طرف بھاگتےہیں جس کا تاثر دیرپا نہیں ہے٬
ایسی ہی ایک اشتہاری مہم ہے
ملالہ
جو تھپڑ آپ کے منہ پر براہ راست نہی مارے جا سکتے کہ آپ ایک جزباتی غیرت مند قوم ہیں
وہ تمام کے تمام تھپڑ رسید کرنے کے لئے ملالہ کے نام سے قانونی حقوق حاصل کر لئے گئے٬

معصوم سی گڑیا سی ملالہ ذرا اس کے بناوٹی چہرے کے خدو خال کا اب بغور معائنہ کریں ٬ آپکو بہت کچھ اندازہ ہو جائے گا وہ بھولی بھالی ملالہ نجانے کہاں کھو گئی اب تو برین واش کی ہوئی ملالہ ہمارے سامنے موجود ہے ٬

بھارت اندھا دھند اپنی توپوں کے دہانے ہمارے نہتے معصوم شہریوں پے دن رات کھولے ان کے لب خاموش
برما کے مسلمانوں کا تاریخی بہیمانہ قتلِ عام کیا جائے یہ بی بی اس وقت نجانے کونسی نیند کی گولیاں کھا کر کس شاہانہ ٹھاٹھ سے خواب خرگوش میں گُم تھیں
غزہ پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری نے خود یہودیوں کو احتجاج پے مجبور کردیا
اور
یہ نام نہاد پاکستانی بی بی غیر ملکی آقاؤں کے اشارے کی منتظر رہیں ٬

یہ سیاستدان بنیں گی اور پاکستانی سیاست کو نئے دور میں داخل کریں گی
ضرور ہو گا ایسا ٬ ہم تو عادی ہیں
بیرونی ماحول کے زیرِ اثر سیاسی رہنماؤں کی اولاد کے غلام بننے کے ٬

Thinking

Thinking

یہ نیا سبق پڑھ کر طاقتور
غیر ملکی سوچ کی حامل یہ بی بی سامنے لا کراس ملک میں لادینیت پھیلائیں گی ٬ تو کون ان کو روکے گا پہلے ہم کس کو روک سکے؟
ٹی وی چینلز والے جب اس کو”” بیٹی”” “” فخرِ پاکستان”” کہتے ہیں تو رونا آتا ہے٬
اتنی کم قیمت کیوں ہے ان سب کی؟

اس ملک کے قرب و جوار پے نگاہ تو دوڑائیں کیا صرف ایک یہی ہے جسے گولیاں لگیں ،
گولیاں لگنے کی دیر ہے٬ دھڑا دھڑ انعامات پے انعامات عہدوں پے عہدے بغیر کسی کارکردگی کے صرف طاقت کی نمائش اور دولت کا استعمال
ہم اسی قابل ہیں

ڈاکٹر قدیر صاحب کو ہم سر عام معافی منگوا دیتے ہیں ٬ ان کا جرم ناقابل معافی تھا
پاکستان سے محبت
جس جس نے یہ جرم کیا اسے ہم نے چُن چن کر دیوار میں زندہ چنوا کر دم لیا ـ
ایسے مظالم جن ملکوں میں ہوتے ہیں وہاں پھر غیر آکر بتاتے ہیں کہ اصل میں قابل کون ہے؟
ملالہ نامی قابل بی بی کی قابلیت کی تشہیر کی جاتی ہے جو آپ کے دین کا مذاق بنا کر روایات کا تماشہ دکھا کر کتابی صورت چھاپتی ہے ـ

پھر اسی پر اکتفا نہی کیا جاتا
٬ پوری دنیا میں اس پاکستانی مصنوعات کا غیر ملکی ممبران کے ہمراہ لائیو شو جگہہ جگہہ منعقد کیا جاتا ہے اور اسے تمام دولتمند ممالک بخوشی پزیرائی دیتے ہیں ٬ پاکستان کا نام صرف ملالہ میں سمٹ جاتا ہے٬
نوبل انعام کی نامزد ہستی توپوں کی گھن گرج میں شہید ہوتے پاکستانیوں کو بھارت کے ساتھ “” امن کی آشا کے ثمرات سے مستفید ہونے کے بعد اس قوم کو نیا “”امن کا سبق”” دے رہی ہے ٬

یہ منظورِ نظر بڑی طاقتوں کی ہیں ٬ لہٰذا اس کو تاریخی شخصیت قرار دے دیا گیا ـ ہم کمزور حیثیت احساس کمتری کے مارے ہوئے اسے ہاتھوں ہاتھ لینے اور ماننے پے ہمیشہ کی طرح مجبور ؟
آپ کی نئی نسل میں حقیقی مثالیں موجود ہیں٬ جو زندگی کی صعوبتوں سے کسی مضبوط چٹان کی طرح منجمند ہو کر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں ٬ مگر افسوس کہ ہر بہادر بیٹی اور خاص طور سے پاکستان کی بیٹی کو ایسی پزیرائی نصیب نہیں ہوتی کیونکہ ہر کوئی ملالہ کی طرح بڑی طاقتوں کا ہتھیار نہیں بنتی ”
سوچنا ہوگا پاکستان
اپنے کچے گھر اپنے ہیں ٬ پرائے محل پر فخر تو کیا جا سکتا ہے ٬
لیکن اس کی پہچان ہمیشہ اس کے اصل مالک اور بنانے والے سے ہی ہوگی٬
آپ کی حیثیت ہمیشہ ایک عارضی مہمان کی رہے گی ٬
فخر کرنا ہے تو اپنی “” کسی ملالہ”” پے کرو٬ اسے کھوجو اسے جانو اور اسکو سامنے لاؤ
لیکن
یہ کام بہت مشکل ہے ہم عادی ہیں ریڈی میڈ بیگانے سامان کے
اس سادہ لوح قوم کے سامنے لگتا ہے ہر حرف حرفِ بے اثر

شاہ بانو میر

Shahbano Mir

Shahbano Mir