تحریر : مبشر حسن شاہ صحافت ایک پیشہ ہے جس کا تقدس ایسا ہے کہ اس میں اخلاقی ذمہ داریاں ، عام پیشے سے بڑھ کر ہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ صحافی کا لقب اپنانے والوں کے لیے کوئی ضابطہ ،قائدہ ہونا چاہیئے ۔ یہاں تو ایسا ہے کہ جس کے گناہ اتنے بڑھ جائیں کہ ڈر ہو کہ اب پکڑہوئی یا تب تو وہ فوراََ صحافت کا نقاب اوڑھ کر خود کو محفوظ کر لیتا ہے۔ صحافت کے مقدس پلیٹ فارم کو ایسی کالی بھیڑوں نے آلودہ کر رکھا ہے۔ جس طرح کوئی بھی پیشہ ، مکمل پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کیے بغیر نہیں اپنا یا جاسکتا اسی طرح صحافی بھی وہی کہلا سکتا ہے جس نے صحافت کی پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کی ہو۔کیا کوئی ڈاکٹر ،ایم بی بی ایس کیے بغیر خود کو ڈاکٹر کہلوا سکتا ہے؟ یا قانون اس کو اجازت دے گاکہ وہ بطور ڈاکٹر اپنی خدمات عوام کے لیے پیش کرے؟ ہر گز نہیں چاہے اس کا علم عام ڈاکٹروں سے سو گنا زیادہ ہی کیوں نہ ہو لیکن چونکہ وہ ایک پراپر طریقے سے آگے نہیں آیا لہذا اس کو قانو ن ڈاکٹر کہنے ، کہلوانے کی اجازت نہیں دیتا۔ انجینئر وہی بن سکتا ہے جو ڈگری ہولڈر ہو۔ مستری کی دکان پر کام سیکھنے والا چاہے کتنا لائق کیوں نہ ہو، استاد ہی کہلائے گا انجینئر نہیں۔
پیمبرا ، کو اس سلسلے میں قانون سازی کرنی چاہیئے اور اخبارات کے ڈکلریشن ،ٹی وی کے لائسنس صرف صحافت میں پیشہ وارانہ ڈگری کے حامل افراد کو ہی جاری کئے جائیں۔اس کے علاوہ باقاعدہ صحافی کا تعارف اور عہدہ وہی شخص کلیم کر سکے جو باقاعدہ صحاتی ڈگری کا حامل ہو۔ آج کل تو جس کے پاس چار پیسے آتے ہیں وہ اخبار نکال لیتا ہے ۔ اس سلسلے میں ایک افسوس ناک واقع تلہ گنگ میں پیش آیا جس میں اسسٹنٹ کمشنر وسیم خان نے ایک ہسپتال چیک کیا تو اس کا مالک جوصحافی ہے وہ اکڑ گیا۔ چھوٹی سی بات کو اتنا ایشو بنا یا گیاکہ اللہ کی پناہ ۔ اس صحافی کو تلہ گنگ کے دیگر خود ساختہ صحافیوں کے گینگ کا شیلٹر بھی مہیا ہو گیا۔ان صاحبان نے تلہ گنگ پریس کلب کے نام سے ایک پریس کلب بھی بنا رکھا ہے جس کا اصول ہے ” من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو” جس کو اپنی بد قماشیوں اور کالے کرتوتوں پے پردہ ڈالنا ہوتا ہے وہ کسی قومی روزنامے کا نمائندہ بن کر اس پریس کلب کو جائن کر لیتا ہے اس کے بعد وہ پورے شہر میں لاقانونیت اور غنڈہ گردی کرنے کو آزاد ہوتا ہے۔
اے سی تلہ گنگ کی ہسپتال چیکنگ کی کوشش کو فوراََ صحافت پر حملہ کہہ دیا گیا اور اس سلسلے میں جواز یہ پیش کیا گیاکہ چونکہ مذکورہ ہسپتال کے ہی ایک کمرے میں اخبار کا دفتر قائم تھا لہذا ، اسسٹنٹ کمشنر کا یہ قدم صحافت پر حملہ ہے ۔دنیا میں کوئی ہسپتال ایسا ہے جس میں اخبار کا دفتر بھی ہو ؟ اگر فرض کر لیا جائے کہ اسسٹنٹ کمشنر کو ہسپتال چیک کرنے کی اجازت قانون نہیں دیتا تھا تو اس کے لیے صحافت کو آڑ بنانا کیوں ضروری تھا۔اس کے فورا بعد تمام نام نہاد صحافی اکٹھے ہو گئے اور مذکورہ ہسپتال کے شیشے توڑ کر باہر ایک بینر لگا دیا جس پر ہسپتال کو اخبار کا دفتر ظاہر کیا گیا تھا۔ اگلے دن شہر میں اس گھٹیا حرکت کا در ِ عمل ہوا اور عام لوگوں نے اسسٹنٹ کمشنر زندہ باد ریلی نکالی جس میں اکثریت عام آدمی کی تھی۔
Talagang
ریلی کی کامیابی پر کھسیانی بلی نے کھمبا نوچنا شروع کر دیا اور تمام ذاغ جمع ہوئے تقریریں ہوئیں ، مذمت کتبے اٹھا کر تصاویر بنوائیں اے سی تلہ گنگ کے خلاف کارئوائی کے لیے حکام کو 24گھنٹے کی خود ساختہ مہلت دی گئی۔ اس سے حکومت کا کیا بگڑنا تھا البتہ رائے عامہ ان صحافیوں کے خلاف ہو گئی۔ کل کی بات ہے تحصیل پریس کلب میں ایک اجلاس ہوا جس میں تمام خود ساختہ صحافی جمع ہوئے اور ایک قرار داد پاس کی کہ انتظامیہ کو 15دن کی مہلت دی جاتی ہے اسسٹنٹ کمشنر کے خلاف کارئوائی کرے نیز تلہ گنگ کے تمام اخبار اے سی کے حوالے سے کوئی خبر نہیں چھاپیں گے۔ اس اعلان کے بعد سوشل میڈیا کی تمام سائیٹس پر عوام کے جزبات دیکھنے والے تھے ۔ ایک دل جلے نے اس اجلاس میں شریک تمام صحافیوں کے گروپ فوٹو کو اس کمبنٹ کے ساتھ پوسٹ کیا کہ تلہ گنگ والوں یہ شکلیں یاد رکھنا اور ان سے کبھی انصاف کی توقع نہ رکھنا ۔ زبان ِ خلق کو نقارہ خدا کہتے ہیں مجھے کوئی ایک شخص ایسا نہیں ملا جو تلہ گنگ کے صحافیوں کی اس اوچھی حرکت پر نالاں نہ ہو۔
دکھ اس بات کا ہے کہ ایک ایماندار افسر کو ہم اس طرح ذلیل کر رہے ہیں جو ہماری فلاح کے لیے کام کر رہا ہے۔اس کا کوئی ذاتی مفاس نہیں نہ کسی کے ساتھ عناد ہے وہ صرف اپنی ڈیوٹی کر رہا ہے لیکن ہم اس کی راہ میں ہر ممکن رکاوٹ کھڑی کر رہے ہیں ۔مجھے ایک ناول کا جملہ یاد آرہا ہے کہ جب شہر والے بے حس ہو جائیں تو سفیران ِ حسین کوفہ کی گلیوں میں بے بسی سے شہید کر دیے جاتے ہیں ۔آ ج بھی ہمارے درمیاں سفیران ِ حسین موجود ہیں ہم نے ان کو شہید نہیں ہونے دینا کوفے والے نہیں بننا۔
میری اس تحریرکا مقصد صرف اور صرف حق گوئی ہے نہ مجھے اسسٹنٹ کمشنر سے کوئی مفاد حاصل کرنا ہے نہ ان نام ناد صحافیوں سے مجھے ذاتی عناد ہے ۔ مجھے اختلاف ہے تو ان کی غلط حرکت سے اور اعتراج ہے تو اہلیت نہ ہوتے ہوئے صحافی بننے اور کہالانے پے۔میری تحریر میں جارحیت ، و تذلیل کا پہلو اگر نکلتا ہے تو سو بار نکلے مجھے قلم اپنے رب کی طرف سے عطا ہوا ہے اور قلم کا حق ، ادا کرنے کے لیے سچ بولنا اور سامنے لانا ضروری ہے۔ مصلحت اور نرم رویہ ایسے معاملات میں منافقت کہلاتا ہے ۔ حکومت سے گزارش ہے کہ خدا کے لیے کوئی ایسا قانون بنائیں کہ یہ صحافتی بد معاشی ختم ہو سکے۔