امریکی ماہرین نے کان کے درد کا علاج کرنے کے لیے جیلی جیسی شکل والی اینٹی بایوٹک تیار کر لی ہے جسے صرف ایک بار کان میں رکھ کر درد پیدا کرنے والے جرثوموں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
کان کا درد چھوٹے بچوں میں بہت عام ہے جس سے انہیں شدید تکلیف اٹھانی پڑتی ہے جب کہ اس کا علاج کرنے کے لیے انہیں 7 سے 10 دن تک روزانہ اینٹی بایوٹک دوائیں کھانی پڑتی ہیں جو ان کی صحت پر بُرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ لیکن بوسٹن چلڈرن اسپتال امریکا کے طبّی ماہرین نے بایو انجینئرنگ کی مدد سے اس کا آسان علاج ایجاد کرلیا ہے جو ایک جیلی دار مادے (Gel) کی شکل میں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کھائی جانے والی اینٹی بایوٹک دوائیں ہمارے جسم کے غیر متعلقہ اور صحت مند حصوں پر اثر انداز ہوتی ہیں جب کہ ان کا کچھ حصہ ہی کان تک پہنچ پاتا ہے۔ کان تک دوا کی مناسب مقدار پہنچانے کے لیے بچوں کو دوا کی زیادہ خوراک دینی پڑتی ہے جس کے ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) عام طور پر اُلٹی، دست، گلے کی خراش اور جلد پر دھبوں وغیرہ کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔
ان ہی ضمنی اثرات کی وجہ سے اکثر بچوں کا علاج ادھورا رہ جاتا ہے اور یوں ان کے کان میں درد پیدا کرنے والے زیادہ سخت جان بیکٹیریا پیدا ہونے لگتے ہیں جو تکلیف کو کم کرنے کے بجائے مزید بڑھا دیتے ہیں۔
کھائی جانے والی اینٹی بایوٹکس کے برعکس یہ جیلی دار مادہ براہِ راست کان میں رکھا جاسکتا ہے اور اس سے خارج ہونے والی دوا صرف کان ہی میں موجود جراثیم کو ہلاک کرتی ہے جب کہ جسم کے باقی حصوں پر اس کے اثرات نہیں پڑتے۔
علاوہ ازیں اسے صرف ایک مرتبہ ہی کان میں رکھ دینا کافی ہوتا ہے کیونکہ یہ جیلی دار مادّہ تھوڑی تھوڑی مقدار میں دوا خارج کرتا رہتا ہے جس سے ضمنی اثرات کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔ مدت پوری ہونے پر یہ جیلی خودبخود ختم ہوجاتی ہے جس کے بعد کان کو آسانی سے صاف کیا جا سکتا ہے۔
فی الحال جانوروں پر اس جیلی دار مادّے کی آزمائشیں کامیابی سے مکمل کی جاچکی ہیں اور اگلے مرحلے میں اسے انسانوں پر آزمایا جائے گا۔ اگر اس کی انسانی آزمائشیں بھی اتنی ہی کامیابی سے مکمل ہوگئیں تو اُمید ہے کہ آئندہ 3 سے 4 سال میں یہ مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کردی جائے گی۔