تحریر : محمد ریاض بخش ایک بندہ 15 سال بعد لاہور اپنے گھر آیا زندگی کے پندرہ سال وہ بیرون ملک گزر آیا۔ایئرپورٹ سے کیپ لی اُس کو اپنے گھرکا اڈریس بتایا بندے کو ملتان روڈ جانا تھا۔ خوشی خوشی کیپ میں سوار ہوا۔کیپ اپنی منزل کی طرف کامزن ہوئی۔بندہ بہت خوش تھا کیوں نا ہوتا آخر پندرہ سال بعد اپنے ملک اپنے گھر آیاکیپ جب کلمہ چوک والے انڈر پاس میں داخل ہونے لگی تو بندہ چلایایہ آپ مجھے کہاں لے کے جا رہے ہو؟پچھلے راستے کا تو مجھے کچھ ideaتھامگر اب ہم کہاں جا رہے ہے؟ڈرائیور۔سر ہم لوگ کلمہ چوک کراس کر رہے ہے۔۔بندہ مجھے بیوقوف بنا رہے ہویہ کلمہ چوک نہیں ہے۔
ڈرائیور۔سر یہ کلمہ چوک ہی ہے ۔بندہ اگر یہ کلمہ چوک ہے توجس پے کلمہ لکھا ہوا تھا وہ مینارکہاں ہے؟دونوں میں کافی باعث چلتی رہی آخر بندے کوہار منانا پڑی ڈرائیور نے بتایا کہ سر آپ کی بات درست ہے مگر اب لاہور کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔بندہ مجھے یقین نہیں ہورہا کہ میں اپنے لاہور آیا ہوں۔چلو ایسا کروجو چار مینا ر والا چوبرجی ہے وہاں سے چلو مجھے یقین ہو جائے گا کہ میں سچ میں لاہور میں ہو،۔ڈرائیور۔سر وہاں سے نہیں جا سکتے وہ راستہ بند ہے۔بند ہ کیوں بند ہے بھائی؟ڈرائیور سر وہا ں سے میڑوٹرین کا ٹریک گزر رہا ہے۔خیر کیپ بندے کے گھر پہنچی ڈرائیور نے بڑے جوشیلے انداز میں کہاں سر آپ کی منزل آہ گئی ہے۔
بندہ یہ میرا گھر نہیں ہے۔ڈرائیور سر آپ نے جو اڈریس دیا تھاوہ ہی ہے۔بندہ اڈریس بتائو؟ڈرائیور نے اڈریس بتایا تو بندہ کہتا کہ اڈریس تو ٹھیک ہے مگر یہ میرا گھر نہیں ہے یہاں تو کسی کی شادی ہورہی ہے۔کچھ دیر بعد بندے کے گھر وال اُسے اندر لے گے ارو ساری بات بتائی کہ لاہور اب پہلے جیسا نہیں رہاجہاں گلیاں تھی وہاں اب روڈ بن گئے ہے جہاں دوکانیں تھی وہاں اب پُل بن گئے ہے۔خیر بندہ یہ کہتے ہوئے اپنے کمرے میں گیاکہ شاہد میں خواب دیکھ رہاہوں سو کر اُٹھو گا تو سب 15سال پہلے جیسا ہو گا۔۔کچھ دن پہلے میں زمین سے ملا۔
Multan
زمیں تو پوری دینا میں ایک ہے مگر اس کے بھی نیٹ وارک ہے پوری دنیا میں جس زمیں سے ملا اس کا نیٹ وارک کلمہ چوک گلبرک ملتان روڈمطلب ایسا سمجھ لو کے پورے لاہورمیں ہے۔بات چیت ہوئی میں جیسے ہی زمیں سے اُس کے حال چال کا پوچھا توزمیں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی۔زمین روتے ہوئے کیا حال بتائو ہر جگہ سے تو آپ لوگوں نے مجھے کاٹ ڈالا ہے جگہ جگہ اب میرے جسم پے زخم ہے ایک زخم پے مرہم لگاتی ہوں تو دوسرا ہرا ہو جاتا ہے۔اب تو مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ میرے جسم کا کون سا حصہ اب سہی سلامت ہے۔۔میرے اندر جو برداشت کی سکت تھی وہ اب ختم ہو گئی ہے جس کی وجہ سے اب میرے وجود سے پانی کم ہو رہا ہے۔۔ زمیں زور سے روتے ہوئے جگہ جگہ کھدائی کی وجہ سے میرے اندر جو سیم تھی وہ آپ لوگوں نے ختم کر دی ہے۔اپنے فاہدے کے لیے آپ لوگوں نے مجھے حلال کر دیا۔
مجھے یاد ہے اپنا لاہور ارو لاہور میں رہنے والے میرے ہمدردجو مجھے اتنا چاہتے تھے اگر کئی میرے اوپر کھدائی ہو جاتی تو وہ لوگ مرہم لے کر میرے اوپر ایسے آہ جاتے جیسے میں اُن کی نئی نوالی دلہن ہوں جو جس نے پکڑ لیا اُسی کی ہوگئی۔اگر میرے اندر کی سیم کم ہونے لگتی تو وہ لوگ میرے اوپر اتنے پودے لگاتے کہ پائوں رکھنے کی بھی جگہ نا ملتی۔آج مجھے ذیادہ رونا اس لیے بھی آہ رہا ہے کہ میرے چاہنے والوں کے لگے ہوئے درخت اب آپ لوگ اپنے فائدے کے لیے بے دردی سے کاٹ رہے ہے ۔ارو کوئی کچھ نہیں بول رہامیری خوبصوتی تو چلی گئی اب جو میرے جسم میں تھوڑی بہت سیم باقی ہے وہ آپ لوگ میڑوٹرین کی کھدائی کے بہانے ختم کر رہے ہو۔
زمیں چلتے ہوئے چلوابھی میں چلتی ہوںزخموں پے داوئی لگانی ہے بہت درد ہو رہا ہے ارو رات ہوگئی ہے شاہد کھدائی بند ہوگئی ہوارومیں کچھ دیر آرام کر سکوں۔زمین چلی گئی میں بھی چلتا ہوںکچھ زمیں کے بارے میں سوچتا ہوںآپ بھی سوچیے جیسے زمیں کے اوپر ہم بیدردی سے کھدائی کر رہے جس کی وجہ سے اُس کی اندر کی سیم ختم ہوتی جا رہی ہے اُس کو کیسے روکاجائے اگر زمین نے سچ میں پانی ختم کر دیایا ہوگیا تو ہم لوگ کیا کرے گے؟؟؟؟؟؟؟میں زمیں سے آج پھر ملا ہوں وہ باتیں کل بتائو گا آپ تب تک ان باتوں کو سوچے۔۔۔۔