تحریر: علی عمران شاہین گاڑیوں میں گھنٹوں پہاڑی سفر کے بعد اب پیدل سفر کا مرحلہ آن پہنچا تھا… یہ حالیہ زلزلہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ضلع شانگلہ کا علاقہ شاہ پور تھا جہاں دریا کنارے فلاح انسانیت فائونڈیشن کے رضاکار اب بلند و بالا پہاڑوں پر چڑھنے کیلئے تیار تھے… حافظ عبدالرئوف اس بلندو بالا چوٹی کی جانب اشارے کر کے کہنے لگے ، وہ ہمارا امدادی سامان لے کر خچر اوپر پہنچ رہے ہیں، اب ہم نے وہاں جانا ہے… اور پھر… سفر شروع ہو گیا… کوئی اڑھائی گھنٹے پیدل سفر کے بعد ہم شپنئی نام کے اس گائوں میں پہنچے توسامنے منظر انتہائی دل دہلا دینے والا تھا۔
زلزلے سے سارا گائوں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل تھا تو لوگ کھلے آسمان تلے بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے رضاکاروں کی اس بڑی ٹیم کے پہنچتے ہی سب کے چہرے جیسے کھل اٹھے… صرف اس لئے کہ ان کے زخموں پر کوئی مرہم رکھنے اور ان کا دکھ درد بانٹنے ان کے پاس ملک کے دور دراز علاقوںسے یہ لوگ آئے تھے۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین جناب حافظ عبدالرئوف جیسا رضاکار شاید اس دور نے پہلے نہ دیکھا ہو یا ہم نے تو کم از کم نہیں پڑھا، سنا اور نہ دیکھا کہ جو ہر جگہ خود یوں دن رات دکھیاروں کے غم میں ہر پل آبلہ پائی میں مصروف ہو۔ اس نے اپنی ہر سانس اور ہرروز و شب کا مقصد ہی یوں خدمت انسانی اور اس راہ میں ہمہ وقت تیار و ہوشیار رہ کر بڑھتے ہی چلے جانا بنا رکھا ہو۔
شپنئی کے اس گائوں میں راشن پیکیج کے ساتھ بستر اور جستی چادریں تقسیم کی گئیں تو پاس ہی کھڑے ایک مقامی شخص کہنے لگا، میرے ساتھ یہ جو شخص کھڑا ہے، یہ انتہائی مفلس و نادار ہے لیکن خودداری کے باعث اس نے کہیں اور کسی کے سامنے دست سوال نہیں پھیلایا۔ مجھے رہنے دیں، بس آپ ایک بستر اسے دے دیں۔ یہ کیسا منظر تھا…کہ یہاں ہنستی کھیلتی زندگی کو ہڑپ کرنے کے لئے موت منہ کھولے کھڑی تھی لیکن موت کو سامنے دیکھنے والادوسرے کی سانسوں کا طلب گار تھا۔
Earthquake Victims with Falah e Insaniat Foundation
اس سارے علاقے میںآج کیسے کیسے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ لوگ اس قدر غیرت و حمیت کے پیکر ہیں کہ بھوکے رہ کر اور سخت سردی میں بیوی بچوں سمیت کھلے آسمان تلے شب بسری کر لیتے ہیں لیکن کسی سے سوال کرتے نظر نہیں آتے، اسی لئے تو فلاح انسانیت فائونڈیشن اور اس کے رضا کاروں کو انتہائی سخت و دشوار سفر کر کے ان کے گھروں کے ملبہ پر ان کے پاس چل کرجانا پڑ رہا ہے۔ ان خدمت گاروں کا یہ سفر 26اکتوبر کے دن ہی سے شروع ہو گیا تھا ،جب 8.1شدت کے زلزلے نے ملک کے بڑے حصے کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ شانگلہ کے اس جان توڑ سفر میں مقامی نوجوانوں کو ملک کے دیگر حصوں سے آنے والے رضاکاروں کے ہمراہ مصروف عمل پایا تو حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی… یہیں کے رہنے والے ایک نوجوان نے جو یونیورسٹی سٹوڈنٹ ہیں، طویل پہاڑی سفر سے واپسی پر استفسار پر اپنا نام اعزاز اللہ بتاتے ہوئے کہا کہ اس کا تعلق شانگلہ کے علاقے بیلے بابا سے ہے۔
ہم نے فلاح انسانیت فائونڈیشن کا نام تو سن رکھا تھا لیکن ان لوگوں کو دیکھنے اور ملنے کا موقع پہلی بار ملا ہے۔ زلزلہ کے بعد شانگلہ میں سب سے پہلے پہنچنے والے یہی لوگ تھے جو بیلے بابا اور اس سے کہیں آگے تک آئے تھے۔ ہم اور ہمارا علاقہ تو محفوظ رہے لیکن جہاں کہیں نقصان ہوا، اس نے ہمیں بھی رنج و الم میں مبتلا کیا۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کی گاڑیاں، رضاکار اور ذمہ دار ہمارے علاقے میں امدادی کام کے لئے مرکز بنانے کے لئے بھاگ دوڑ کرتے نظر آئے تو میں نے اپنے والد سے بات کی۔ میری بات سن کر انہوں نے بغیر یہ پوچھے کہ یہ کون لوگ ہیں؟کہاں سے آئے ہیں؟ فوری اپنا گھر خالی کر کے فلاح انسانیت فائونڈیشن کا امدادی مرکز بنا دیا اور اب یہاں سارا امدادی کام ہمارے ہی گھر سے ہو رہا ہے۔ اعزازاللہ بولے جا رہا تھا کہ میں نے تو اپنی زندگی میں ایسے لوگ نہیں دیکھے… بس میں تو ایک ہی بات کہتا ہوں کہ اگر ہم اپنی جان بھی آپ کے لئے پیش کر دیں تو بھی شاید حق ادا نہیں ہو سکے گا۔
اللہ اللہ… ان لوگوں کے یہ جذبے کہ جنہوں نے فلاح انسانیت فائونڈیشن کو پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا،سبھی دیدہ ودل فراش راہ کرتے نظر آتے ہیں۔ان مہمانوں کے لئے یہ دکھیارے نہ جانے کہاں کہاں سے سامان ضیافت لاتے اور بچھے چلے جاتے ہیںکہ بس آپ ہمارے پاس آ گئے ،یہی ہمارے لئے کافی ہے… 26اکتوبر کو آنے والے اس زلزلے نے عجیب طرز کی تباہی پھیلائی ہے… اللہ کا یہ تو فضل و کرم ہوا کہ 10سال پہلے کے زلزلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدت کے اس زلزلے سے ملک میں لگ بھگ سبھی چھوٹے بڑے شہر و قصبات تو تقریباً محفوظ رہے لیکن بلند و بالا پہاڑی علاقوں کی چوٹیاں اور ان پر کچے پکے مکانات مکمل طور پر ملیامیٹ ہو گئے۔
Earthquake Victims
یہ امتحان بڑا ہی عجب ہے کہ سارے عالم میں خدمت انسانی کیلئے سب سے بڑھ کر خرچ کرنے کا اعزاز و ریکارڈ رکھنے والی پاکستانی قوم اس بار کے زلزلے کو محسوس بھی کرنے کو تیار نہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنا خصوصی فضل و کرم کرتے ہوئے سوائے چند لاکھ لوگوں کے سارے ملک کو محفوظ رکھا، ہم سب اس کے تشکر میں اپنا سب کچھ ہی مصیبت زدہ ہم وطنوں کے لئے نچھاور کر دیتے لیکن … کیا کہا جائے کہ اس روز جیسے زلزلے کے جھٹکے آئے اور لوگ جان بچانے کی فکر میں گھروں،عمارتوں سے باہر نکلے اور جب جھٹکے ختم ہوئے تو سب لوگ کسی مشین کے کے پرزوں کی طرح دوبارہ اپنی اپنی جگہ جا کر مخصوص حرکت میں مصروف ہو گئے اور بس۔ حالت زار اب کچھ یوں ہے کہ زلزلہ زدہ علاقوں میں سردی اپنے پورے عروج پر ہے… برف باری اور مسلسل بارشوں نے جینا دوبھر کر رکھا ہے، ایسے میں زلزلے کے زخمیوں پر کیا بیتتی ہو گی…؟ معصوم ننھی کلیوں کی کھلے آسمان تلے رات کیسے گزرتی ہو گی…؟ بوڑھوں کی ہڈیوں کو چیرتی یخ بستہ ہوائیں انہیں کس حال سے دوچار کرتی ہوں گی…؟ یہ سب تو اس بار کوئی محسوس کرنا تو کجا، سوچنے کو بھی تیار نہیں۔ حافظ عبدالرئوف پہلی بار کہنے پر مجبور ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں اپنے کلمہ گو اور ہم وطنوں کی مجبوروں اور لاچاروں سے اس قدر لاتعلقی دیکھی نہیںبلکہ سوچی بھی نہیں تھی کہ کبھی ایسا بھی دن آئے گا کہ سارا پاکستان پتھردل بن جائے گا۔
زلزلہ سے تباہ حال ضلع شانگلہ کے باسیوں کا سب سے بڑا ذریعہ روزگار کوئلے کی کانوں میں جا کر کام کرنا ہے۔یہ کانیں اندرون سندھ یا پھر پنجاب کے ضلع جہلم میں واقع ہیں۔یہاں کے لوگ موسم سرما میں علاقہ چھوڑ کر مزدوری کیلئے پہنچ جاتے ہیں اور موسم گرما کے عروج پر پہنچتے ہی واپس اپنے علاقے کا رخ کر لیتے ہیں جہاں وہ موسم گرما اپنے ٹھنڈے علاقوں میں رہ کر گزارتے ہیں۔ جب زلزلہ آیا تو اہل علاقہ کے قابل روزگار افراد کی بڑی تعداد گھروں سے دور تھی، سو موت کے منہ میں جانے، زخمی ہونے اور برباد ہونے والوں کو تو اٹھانے والا بھی کوئی نہ تھا۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے قافلے جب ان علاقوں میں پہنچے تو ان لوگوں نے ایسے ہی سمجھا جیسے فرشتوں کی فوج ان کے ہاں اتری ہے۔
پنجاب بھر کے دور دراز شہری علاقوں میں رہنے والے ڈاکٹرز اور ان کے طبی عملہ کے ساتھی ادویات اور طبی سامان اٹھا کر کئی کئی گھنٹے چل کر ان لوگوں کے علاج معالجے میں مصروف رہے توساتھ ہی بھوکوں کو کھانا کھلانے کیلئے جگہ جگہ انتظامات کئے گئے۔اب یہاں ان لوگوں کے لئے ماہانہ راشن پیکیج کی تقسیم جاری ہے۔ہم جیسے باقی اہل وطن شاید سوچتے ہوں کہ یہاںحکومتی امداد کے ڈھیر لگ چکے ہیںحالانکہ ایسے مواقع پر متاثرین کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے، اس سے تو ہم سب ہی واقف ہیں۔ سو ان علاقوں میں تو ایسی ہی ڈاکہ زنی عروج پر ہے۔پھر یہاں کے لوگ تو ہاتھ پھیلانا اور امداد کیلئے قطاروں میں کھڑا ہونا اپنی سب سے بڑی توہین سمجھتے ہیں۔