تحریر: کامران غنی زمین کی ہر ایک جنبش پر لوگ اپنے اپنے گھروں سے اس طرح بھاگے جا رہے تھے گویا خود ان کا گھر ہی آج ان کا دشمن بن گیا ہو۔ گھروں کے باہر، پارکوں اور میدانوں میں لوگوں کا جم غفیر حسرت بھری نگاہوں سے اپنے اپنے گھروں کی جانب دیکھ رہا تھا کہ نہ جانے کب اس کا گھر خس و خاشاک کی طرح زمین دوز ہو جائے۔یہ نقشہ تو صرف ان جگہوں کا ہے جہاں گزشتہ تین دنوں تک لگاتار زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے۔ ذرا تصور کیجیے نیپال کا جہاں ہزاروں لوگ آن واحد میں لقمۂ اجل بن گئے۔کیا کسی نے تصور بھی کیا تھا کہ اس کے خوابوں کی دنیا اس طرح مسمار ہو جائے گی؟ جس گھر کی تعمیر میں لاکھوں اور کروڑوں روپیے خرچ کئے گئے تھے آج وہاں ملبوں کا ڈھیر ہے۔ موت ہماری بے بسی پر خندہ زن ہے آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
بلاشبہ انسانی تاریخ نے اس سے کہیں زیادہ خطرناک اور دلدوز مناظر بھی دیکھے ہیں۔ انسان کو خالقِ کائنات نے حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی دیا ہے اور حادثات و واقعات سے سبق حاصل کرنے کا شعور بھی۔ اس زلزلے کے اثرات بھی رفتہ رفتہ کم ہوتے جائیں گے اور انسانی زندگی اپنی ڈگر پر واپس چلی آئے گی لیکن جو لوگ عقل و شعور رکھتے ہیںان کے لیے یہ زلزلہ ایک تازیانہ ہے۔ زندگی کی بھاگ دوڑ میں اپنے انجام سے غافل انسان یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ موت ہر جگہ اور ہر لمحہ اس کا تعاقب کر رہی ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ کب اور کس طرح وہ موت کی آغوش میں چلا جائے گا۔ ذرا دیر کے لیے ٹھہرئیے اور سوچئے کہ ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ ہمیں ہمارے پروردگار نے اپنے اعمال کے محاسبے کا مزید ایک موقع عنایت فرمایا ہے۔ کیا ہماری آنکھوں نے نہیں دیکھا کہ اسی زلزلے میں نہ جانے کتنے لوگوں کا مدفن خود ان کا گھر بن گیا؟؟
Alllah
سوچئے خدا نخواستہ ہمارا انجام بھی اسی طرح ہوتا تو ہم اپنے نامہ اعمال میں کیا لے کر اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوتے؟ زلزلے ہوں یا دیگر قدرتی آفات۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ان کے جغرافیائی اور سائنسی اسباب ہوتے ہیں لیکن بحیثیت مومن ہمارا یہ ایمان ہے کہ ایک پتہ بھی اللہ کے حکم کے بغیر نہیں ہلتا۔ افسوس کا مقام ہے کہ تغیر پذیر سائنسی توجہیات میں الجھ کر ہم غیر تغیر پذیر تعلیمات قرآن و حدیث پر غور کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ احادیث کا مطالعہ کیجیے اور علامات قیامت کے تعلق سے مروی احادیث و اقوال پر غور و خوص کیجیے۔ کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہم قیامت کے بالکل قریب کھڑے ہیں؟۔ کیا اللہ کے رسولۖ کے زمانہ میں سائنس اتنی ترقی کر چکی تھی کہ آپ چودہ سو سال کے بعد کے حادثات و واقعات کی پیشنگوئی کرنے پر قادر تھے؟ زلزلوں کی کثرت، زنااور شراب کا عام ہونا، رقص و سرور کی محفلیں، اونچی عمارتیں اور ایسی بے شمار نشانیاں ہیں جن کا تصور بھی آج سے چودہ سو سال قبل محال تھا۔
افسوس کہ روشن خیالوں کا ایک طبقہ ایسی واضح نشانیوں کو دیکھنے کے باجود دہریت کی کچی عمارتوں پر نازاں ہے۔وہ معصوم ذہنوں کو ہدایت کا طلبگار دیکھنا نہیں چاہتا ۔ وہ انھیں سائنسی توجہیات میں الجھا کر دین سے بدظن کرنے کے درپئے ہے۔ اسلام سائنس کا ہرگز مخالف نہیں ہے بلکہ جو لوگ سائنسی فہم و بصیرت رکھتے ہیں وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ قرآن کی بعض آیات جدید سائنسی انکشافات کو ظاہر کرتی ہیں۔ ہم فی الحال اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ کائنات کا طبعی اور مابعد الطبعیاتی نظام خواہ ہمارے علم اور فہم و بصیرت کی دسترس میں ہو یا اس سے باہر ”کن فیکون” کے عظیم قرآنی فلسفہ پرچل رہا ہے۔ زلزلہ اور دیگر قدرتی آفات بھی اسی کے دائرۂ کار میں ہیں۔ نیپال سمیت ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں آنے والے زلزلے کے جھٹکوں نے ہدایت کے طلبگار ذہنوں کو ایک بار پھر سے اپنے خدا کی طرف لوٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔
Mosques
مساجد میں رمضان جیسا سما ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خدا کی طرف سے عطا کی گئی اس مہلت کو ہم غنیمت سمجھیں اور ایک نئی زندگی کا آغاز کریں۔ گناہوں پر نادم ہوں۔ اپنے پچھلے اعمال کا جائزہ لیں اور آئندہ کے لیے سچی توبہ کریں۔ بلاشبہ ہمارا رب انتہائی غفور الرحیم ہے۔ ”حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے آدم کے بیٹے جب تک تم مجھ سے دعا کرتے رہو گے اور مجھ سے امیدیں وابستہ رکھو گے ، میں تم کو معاف کرتا رہوں گا۔
جو گناہ بھی تم نے کئے ہوں گے اور مجھے کچھ پروا نہیں (تم نے کتنے گناہ کئے)۔ ائے آدم کے بیٹے! اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تم مجھ سے معافی طلب کرو تو میں تمہیں معاف کر دوں گا اور مجھے کچھ پرا نہیں۔ ائے آدم کے بیٹے! اگر تم زمین کے برابر گناہوں کے ساتھ مجھ سے ملاقات کرو لیکن جب تیری مجھ سے ملاقات ہو تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں تیرے پاس ان گناہوں کے برابر بخشش کے ساتھ آئوں گا۔”(ترمذی)