تحریر: سید علی جیلانی اخبار میں ایک خبر پڑہی کہ زلزلے کے بعد تمام مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد بڑھنا شروع ہوگئی یعنی جب ہم نے بلڈنگوں کو زمین بوس ہوتے دیکھا، لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھا زخمی ہوتے ہوئے دیکھا بچوں کو بغیر مکان کے سردیوں میں بغیر چھت کے رات گزارتے ہوئے دیکھا تو فورا خدا یاد آگیا اور دوڑے اپنے گناہ بخشوانے یہ انسان بھی عجیب چیز ہے کبھی یہ نہیں سوچتا خدا تعالی نے سب سے پہلے اسکو بنایا پھر طرح طرح کی نعمتیں عطا کی اس دنیا میں آسائشیں پیدا کی لیکن یہ انسان لفظ شکریہ بھول گیا ہے دنیا میں جب انسان کو کسی انسان سے کام پڑتا ہے تو بڑی خوشاآمد میں لگ جاتا ہے اور کام ہونے کے باد تحفے اور میٹھائیاں اس شحض کو پہنچاتا ہے اور شکریہ ادا کرتا ہے لیکن اس ذات نے اس دنیا میں سب کچھ عطا کیا اس کا ہم شکر ادا نہیں کرتے اس نے ہمیں بتایا کہ کن چیزوں سے وہ اور اس کا رسولۖ خوش ہوتا ہے۔
مسلامانوں میں اتنی برائیاں ہیں کہ شرم آتی ہے۔چور بازی ،زنا کاری، دوسروں کے مال پر قبضہ ، غیبت ،جھوٹ رشوت خوری، قتل و غارت ، بڑوں کا احترام نہ کرنا ، ایک دوسرے کی عزت پر ہاتھ ڈالنا کوئی ایسی بیماری نہیں جو ہم میں نہیں اور پھر غرور اتنا کہ انتہا کی پناہ دوسری طرف ہمارے حکمرانوں کو دیکھ لیں غریب مرتا رہے گا اور یہ لوگ اپنی کرپشن اور عیش و عشرت سے باز نہیں آئیں گے اور ٹی وی پر آکر بڑے بڑے دعوے غربت ختم ختم ہوجائے گی۔ لوڈ شیڈنگ جلد ختم ہوجائے گی سڑکیں جلد بن جائینگی ۔ پانی جلد اور CNG اور پٹرول سستا ملے گا۔
حکمرانی میں ہم فرعون کو پیچھے چھوڑ دیتے اور خدا کو بھول جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچھتے کہ ہماری حقیقت کیا ہے ایک سیکنڈ میں سانس بند ہوا اور ہم زمین ک نیچے قبر میں جب کبھی آفت آتی ہے تو ہم میں خدا کا خوف پیدا ہوجاتا ہے اور ہم توبہ استقفار میں لگ جاتے ہیں جب 2005 میں زلزلہ آیا تو تمام نے سمجھا کہ اب یہ زلزلہ پھر نہیں آئے گا پھر ہم اپنی زندگی میں مصروف ہوگئے یہ ہم مانتے ہیں کہ قدرتی آفات اللہ کی طرف سے آتا ہے اور ان چیزوں سے محفوظ بھی صرف خدا ہی کرسکتا ہے اور انسان کے بس میں یہ نہیں کہ ان آفتوں کو ٹال سکے لیکن کیا ااس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کچھ بھی اقدامات نہ کریں آفتوں کے بچاو کے لئیے ۔اگر ہم کچھ منصوبہ بندی کریں ان آفتوں سے بچنے کی تو نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے ۔ ہمارے حکمرانوں کو دیکھیں اسمبلی کی بلڈنگ پر ہیلی کاپٹر سے اترتے ہیں۔
Natural Disasters
تو کبھی میچ دیکھنے آتے ہیں توبھی ہیلی کاپٹر پے آتے ہیں لیکن اگر غریب اور زلزلہ سے متاثر لوگ بے یار مدد گار بے آسرا پہاڑیوں پر بیٹھے ہوں تو یہ ہیلی کاپٹر کسی کام کے نہیں کہ ان کو غذا پہنچائی جاسکے یہ تو بیچارے فوجیوں کو شاباش ہے کہ قوم کی مدد ک لیئے ہر جگہ ہر آفات میں پہنچ جاتے ہیں اگر صرف حکمرانوں پر بھروسہ ہوتا تو اللہ ہی حافظ تھا۔ ہمارے ملک میں دیکھا جائے تو آفات سے نمٹنے کے لیے کوئی انتظام نہیں اگر کوئی بلڈنگ گر جائے تو ہفتوں مہینوں اسکا ملبہ پڑا رہے گا۔
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں مشینری پہنچا دی جاتی ہیں لیکن یہ پتا نہیں چلتا کہ اس کام کی نگرانی کون کر رہا ہے وزراء فوٹو سیشن کروا کے چلے جاتے ہیں لیکن اب یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ مانسہرہ، بالاکوٹ، شانگلہ ، گڑی حبیب اللہ ، کاغان مظفر آباد ، میرپور میں پورے دن حکومت پربا قیامت سے بے خبر رہی اگر حکومت نے پہلے کوئی اقدامات کیے ہوتے یا بر وقت کوئی ایکشن لیتی تو بے انتہا انسانی جانیں بچ جاتی ۔ ڈاکٹروں کو بر وقت متاثرہ علاقوں میں بیجھ دیا جاتا تو بے انتہا لوگ بچ جاتے ہر جگہ لوگ مدد کے لئے پکارتے رہے لیکن ان کی مدد کے لیے کوئی نہیں پہنچ سکا وہ بیچارے اپنی مدد آپ کے تھت سارے کام کرتے۔
شاباش ہے مسخیر حضرات کو جن کے دل میں لوگوں کے لیے درد ہے جب بھی کوئی آفت آتی ہے یہ درد رکھنے والے لوگ زلزلہ زردگان کے لیئے چندہ جمع کرتے ہیں ان کے لیئے غذا کا انتظام کرتے ہیں کمبل اور خیمے دوائیاں اور پانی فراہم کرتے ہیں اور وہاں پہنچ کر ملبے میں پھنسے لوگوں کو بھی نکالتے ہیں ۔ بعض لوگ بے انتہا آفت زدہ لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کس طرح کریں ۔ یہ فرض ہے حکومت کا کے لوگوں کو بتائیں کہ فوری طور پر متاثرہ لوگوں کو کس چیز کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں میڈیا بھی ہماری رہنمائی کر سکتا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ کرائسس منیجمینٹ سیل بنائے جس میں ان آفتوں سے نمٹنے کے لیئے اقدامات کیئے جائے اور سوچا جائے کہ آئندہ ان چیزوں سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے ۔ اب وقت سونے کا نہیں بلکہ عمل اقدامات کا ہے آفتوں اور آزمائشوں سے اللہ تعالی سے توبہ کرنی چاہیے اللہ کی ذات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ہمیں حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے اور اپنے اندر اور قوم کے اندر ایک نیا جزبہ پیدا کرنا چاہیے کیا پتہ ہم میں بہت زیادہ غرور تکبر آگیا تھا کہ جو خدا نے 2015 اکتوبر میں ایک اور زلزلہ دکھا کر اپنی طاقت دکھائی اور ہماری حقیقت دکھائی ۔ اس میں وزیراعظم کی زمہ داری ہے کہ سختی سے ایسے اقدامات کریں کہ آئندہ اگر زلزلہ آجائے تو کس طرح تیزی سے تباہ کاریوں سے نمٹ سکتے ہیں۔
لوگوں کو ٹرینینگ دینی چاہیے کہ اگر ایسی آفت آجائے تو کس طرح نمنٹ کر معمول کی زندگی میں آسکتے ہیں ڈاکٹروں کو ہمیشہ الرٹ رکھیں تاکہ کم اموات ہوں اور زخمیوں کو جلد طبی امداد رہنمائی کی جا سکے، خیموں ، بستروں اور کمبل دوائیوں کا اسٹاک ہونا چاہیے تاکہ فوری طور پر متاثرہ علاقوں میں سامان پھنچایا جاسکے ۔ پاکستان قوم ایک بہادر قوم ہے اور سب کچھ کرسکتی ہے بس جگانے والا ہونا چاہیے ہمیں اب ایک اور زلزلہ کا انظار نہیں کرنا چاہیے اب ہمیں عمل اقدامات کرنے ہیں تو انشاء اللہ اگلی مرتبہ ان آفتوں سے ہم اجھی طرح نمٹ سکتے ہیں اور خوف خدا ہمیشہ اپنے دل میں جگا کے رکھیں۔