کوئٹہ (جیوڈیسک) بلوچستان میں ابھی منگل کے روز کے زلزلے سے متاثرہ لوگ پریشان بیٹھے تھے کہ ہفتے کے روز ایک بار پھر زلزلہ آیا جس میں مزید 16 افراد جاں بحق اور 50 زخمی ہو گئے، بلوچستان کے ضلع آواران میں زلزلہ زدگان کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں اور اب وہاں وبائی امراض بھی پھیلنے لگے ہیں، بلوچستان کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں خوف کے بادل ابھی چھٹے نہیں تھے،کہ ایک بار پھر ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ زلزلے کے نئے جھٹکی محسوس ہوتے ہی دہشت زدہ شہریوں کو منگل 24 ستمبر کا وہ روز یاد آ گیا۔
ہمیشہ کی طرح اس باربھی پاکستانیوں نے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے امداد کے انبار لگا دیے لیکن انتظامیہ کی جانب سے مناسب اقدامات نہ ہونے کے سبب امداد کی تقسیم نہیں ہو پارہی۔ مختلف علاقوں میں اب تک امداد پہنچ ہی نہیں پائی۔زلزلے سے کئی کنویں بھی بند ہو گئے جس کی وجہ سے پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں۔ آلودہ پانی کے استعمال سے متاثرین پیٹ کے امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ضلع آوران کی تحصیل مشکے میں متاثرین کھلے آسمان تلے پڑے ہیں ان کے پاس نہ خیمے پہنچے نہ امدادی سامان۔
بلوچستان حکومت، پاکستانی عوام، غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے بھیجا گیا امدادی سامان، ایف سی اورپاک فوج کے کیمپوں میں جمع کیا جا رہا ہے۔ جہاں سے امدادی سامان کی ترسیل تو جاری ہے۔ لیکن راستے ناہموار اور بند ہونے کے باعث اب بھی بہت سے متاثرین امداد کے منتظر ہیں۔ زلزلے نے کتنی ہی جانیں لے لیں۔ اب خوراک کی قلت، گندا پانی اور گرد آلود ہوائیں بچ جانے والے متاثرین کی جان لینے پر تلی ہیں۔