چند روز پہلے اور منگل کو آنے والے زلزلے سے متاثرہ بلوچستان کے علاقے آواران میں ہفتے کی دوپہر ایک اور شدید زلزلے نے تباہی مچا دی، جس سے مشکے کے نواحی علاقے ‘نوک جو’ میں پچیس افراد جاں بحق اور بیسیوں زخمی ہوگئے ہیں۔ ریکٹر اسکیل پر آنے والے اس زلزلے کی شدت 7.2 ریکارڈ کی گئی۔ شدید زلزلے کی وجہ سے علاقے میں رہا سہا مواصلاتی نظام بھی درہم برہم ہوگیا، منگل کے روز آنے والے زلزلے میں تباہ ہونے سے جو مکان اور عمارتیں بچ گئی تھیں، ہفتے کے روز آنے والے زلزلے کے شدید جھٹکوں سے وہ بھی گر گئیں۔ اس سے پہلے اسی علاقے میں پانچ روز قبل شدید زلزلہ آیا تھا جس میں بے پناہ نقصان ہوا تھا۔ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق ایک ہزار سے زاید افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد تو لاکھوں میں ہے۔زلزلوں کی وجہ سے آواران کا سب کچھ تباہ ہوگیا ہے۔ کوئی گھر ہی سلامت نظر آتا ہے۔ایک طرف تو آواران کے لوگ اپنے پیاروں کو یاد کر کے رو رہے ہیں اور دوسری جانب زخمی ہونے والے بے شمار لوگوں کی تکلیف بھی انہیں چین لینے نہیں دے رہی۔ زلزلوں کے باعث بلوچستان میں زلزلے سے بچ جانے والوں کی زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔
متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔زلزلے نے کتنی ہی جانیں لے لیں۔ اب خوراک کی قلت، گندا پانی اور گرد آلود ہوائیں بچ جانے والے متاثرین کی جان لینے پر تلی ہیں۔عموماً زلزلے جیسی قدرتی آفت کے بعد مقامی اسکول اور اس جیسی دیگر سرکاری عمارتیں متاثرین کا مسکن بنتی ہیں لیکن آواران میں یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ اول تو کوئی عمارت کھڑی ہی نہیں رہ سکی اور جو بچی ہیں ان میں اتنی دراڑیں پڑی ہوئی ہیں کہ وہاں کسی کو ٹھہرانا خطرے سے خالی نہیں۔
متاثرہ علاقوں کے رہائشی اپنے ہونے والے نقصان کے صدمے سے دوچار ہیں جس میں اپنے پیاروں سے ہمیشہ کی جدائی اور اپنے گھروں کی تباہی کا صدمہ ہے۔ ان کا سب کچھ برباد گیا ہے، ان کے گھروں سے کئی کئی لاشے اٹھے ہیں، ابھی بھی کئی کئی زخمی ہر گھر میں کراہ رہے ہیں۔ ان زخمیوں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ اس سب کے باوجود متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت اپنے تباہ حال گھروں کا ملبہ ہٹانے پر مجبور ہیں۔ حکومت کی جانب سے متاثرین کی داد رسی کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے امدادی سامان کی ترسیل بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ زلزلے کو آئے کتنے دن گزر گئے لیکن ابھی تک متاثرین امداد کے منتظر ہیں، انہیں کوئی امداد نہیں دی جا رہی۔ زلزلے سے متاثرہ آواران’ مشکے اور کیچ میں زندگی اب بھی سسک رہی ہے۔ تباہ شدہ مکانات کے ملبے کو ہٹانے کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ لوگوں کے پاس شدید گرمی میں سر چھپانے کے لیے جگہ بھی موجود نہیں ہے۔ متاثرین شدید گرمی میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ متاثرہ افراد نے اپنے ٹوٹے پھوٹے گھروں کے باہر ہی چادروں اور چٹائیوں کے سائبان بناکر رہنا شروع کر دیا ہے۔ ان افراد کے پاس خوراک، پانی اور دواؤں کی شدید قلت ہے۔
زلزلے سے متاثرہ بلوچستان کے ضلع آواران میں لاکھوں متاثرین تاحال امداد کی فراہمی کے منتظر ہیں۔متاثرین میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی بھی ہے جو شدیدگرم موسم میں کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ خیمے تو دور کی بات ان کے پاس کپڑے کے ایسے ٹکڑے بھی نہیں جنہیں سر پر تان کر وہ دھوپ کی تپش سے بچ سکیں۔ متاثرین کے پاس نہ راشن ہے اور علاقے میں پینے کے پانی کی بھی شدید قلت ہے۔ زلزلے سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ امدادی کاموں میں مصروف فلاحی اداروں کے مطابق ڈسٹرکٹ انتظامیہ تاحال بہت سے متاثرہ علاقوں تک رسائی ہی حاصل نہیں کرسکی ہے۔ حالانکہ ہمیشہ کی طرح اس باربھی پاکستانیوں نے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے امداد کے انبار لگادیے لیکن انتظامیہ کی جانب سے مناسب اقدامات نہ ہونے کے سبب امداد کی تقسیم نہیں ہو پا رہی۔
Earthquake Victims
مختلف علاقوں میں اب تک امداد پہنچ ہی نہیں پائی۔ زلزلے سے کئی کنویں بھی بند ہوگئے جس کی وجہ سے پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں۔ آلودہ پانی کے استعمال سے متاثرین پیٹ کے امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ضلع آوران کی تحصیل مشکے میں متاثرین کھلے آسمان تلے پڑے ہیں، ان کے پاس نہ خیمے پہنچے نہ امدادی سامان۔ بلوچستان حکومت، پاکستانی عوام، غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے بھیجا گیا امدادی سامان، ایف سی اورپاک فوج کے کیمپوں میں جمع کیا جارہا ہے۔ جہاں سے امدادی سامان کی ترسیل تو جاری ہے۔ لیکن راستے ناہموار اور بند ہونے کے باعث متاثرین تک نہیں پہنچ پارہا اور متاثرین امدادکے منتظرہیں۔
بعض متاثرہ علاقوں میں کچھ غیر سرکاری فلاحی تنظیمیں ضرور ہیں جو یہاں کام کر رہی ہیں۔ لوگ انفرادی طور پر بھی سامان لائے ہیں لیکن سیکورٹی خدشات کی وجہ سے انہیں متاثرہ علاقے میں جانے سے روک دیا گیا ہے۔ بعض غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کا کہنا ہے کہ انہیں ایف سی چوکیوں پر تنگ کیا کارہا ہے۔ ایف سی کا کہنا ہے کہ سامان ان کے حوالے کیا جائے کیونکہ اس کی تقسیم صرف وہ کریں گے۔ حالانکہ ان کے پاس پہلے سے بہت سامان موجود ہے اور وہ ابھی تک آگے لے کر ہی نہیں جا رہے۔ کئی دن گزرنے کے باوجود امداد نہ ملنے پر اس زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر علاقے آواران میں لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں امداد کے منتظر لوگوں نے خیموں سے بھرے ہوئے دو ٹرکوں سے خود ہی سامان چھیننا شروع کردیا تو لیویز کے اہلکاروں نے فائرنگ کرنا شروع کر دی۔ جس پر متاثرین لوگ غصے کا اظہار کرنے لگے۔کچھ دیر میں پولیس اہلکار پہنچ گئے جنہوں نے ڈی سی آفس کے داخلی راستے کو بند کردیا اور لوگوں کو ڈنڈے دکھانے اور مارنے لگے۔ اس گرما گرمی میں کچھ متاثرین کو چوٹیں آئیں، انہوں نے انتظامیہ کے رویے کو توہین آمیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ خیمے نہیں چاہئییں، امداد نہیں دیتے تو نہ دیں مارے تو نہیں، گالی کیوں دیتے ہو۔ ہم بلوچ یہ برداشت نہیں کر سکتے۔ متاثرین کا کہنا تھا کہ یہ بڑے صاحبان ان کی امداد ہضم کرنا چاہتے ہیں۔
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں غیر سرکاری اداروں کی بھی سرگرمیاں محدود ہیں۔متاثرین کا کہنا ہے کہ میڈیا کا کردار بھی مددگار نہیں، ٹی وی چینل ایسی رپورٹیں دے رہے ہیں جس سے ایسا لگتا ہے کہ امدادی سامان لانے والی ٹیموں پر حملے ہو رہے ہیں۔ یہ خیال رہے کہ بلوچستان میں آنے والا حالیہ زلزلہ پاکستان میں آنے والے پہلے پانچ بڑے زلزلوں میں سے ایک ہے۔جن میں زیادہ نقصان ہوا ہے۔
پہلا بڑا زلزلہ 28 دسمبر 1974 کو صوبہ خیبرپختونخوا کے اضلاع ہنزہ، ہزارہ اور سوات میں آیا تھا جس کی شدت 6.2 ریکارڈ کی گئی تھی۔ دوسرا بڑا زلزلہ 8 اکتوبر 2005 صوبہ خیبرپختونخواہ کے ہی اضلاع مظفر آباد اور آزاد کشمیر میں آیا تھا جس کی شدت 7.8 ریکٹر سکیل ریکارڈ کی گئی تھی۔ تیسرا بڑا زلزلہ 28 اکتوبر 2008 کو زیارت اور کوئٹہ کے اضلاع میں آیا جس کی شدت 6.4 ریکارڈ کی گئی تھی۔ چوتھا بڑا زلزلہ 18جنوری 2011 کو آیا جس کی شدت 7.2 ریکٹر سکیل تھی۔ جبکہ پانچواں بڑا زلزلہ حالیہ 24 ستمبر 2013 کا زلزلہ ہے جس کی شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی ہے۔ اتنے بڑے زلزلے کے باوجود ابھی تک زلزلہ متاثرین کے لیے امداد کا کوئی خاص انتظام نہیں کیا گیا جس سے وبائی امراض کے پھیلنے کا خدشہ ہے جو مزید نقصانات کو جنم دے سکتا ہے۔