سحری کے بعد فجر کی نماز میں مسجدیں بھری ہوئی تھیں۔ سب لوگ نماز پڑھ کر ایک دوسرے کو ملتے ہوئے گھروں کو واپس آگئے اور دوبارہ کچھ آ رام کے بعد بچے سکولوں کالجوں کو چلے گئے۔ گھروں سے مرد حضرات اپنی روزی روٹی کی تلاش میں کام پر چلے گئے اور عورتیں گھروں کے کام کاج میں مصروف ہو گئیں۔
صبح نو سے دس کے درمیان کا وقت تھا ۔ پاکستان کے بہت سے علاقوں میں گھروں عمارتوں کی دیواریں ہلنے لگیں چھتیں کانپنے لگیں۔ لوگ دوڑنے لگے ہر کوئی اللہ کو یاد کر نے لگا گلیوں میدانوں میں لوگ اکٹھے ہونے لگے اور چند ہی منٹ میں تمام کیفیت ختم ہوگئی۔ یہ زلزلہ تھا جس کی شدت 8 ریکٹر سکیل تک تھی اور اِن چند منٹوں میں صوبہ سرحد (KPK)بلوچستان اور ملک کے بہت سے علاقے برْی طرح متاثر ہوئے۔ شیروں کے شہر قبرستان گائوں کے گائوں ملبے کاڈھیر بن گئے لوگوں کے چمن صحرا ہوگئے۔ ہزاروں لوگ ملبے تلے دب گئے لاکھوں زخمی ہو گئے کئی موقع پر مر گئے اور کچھ کو اپنے جسم کے کچھ حصوں سے ہاتھ دھونہ پڑا۔ اور کئی جگہوں پر تو خاندانوں کے خاندان صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔
قارئین اِس وقت ہمارے تمام متاثرہ بھائی پورے ملک کی طرف آس لگائے بیٹھے ہیں۔ میڈیا کے تمام لوگوں نے اس مشکل گھڑی میں کٹھن راستوں میں پہنچ کر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے پوری دنیا کو متاثرہ لوگوں کی ضروریات سے آگاہ کیا اور اس مشکل گھڑی میں پاکستانیوں نے ایک ہو کر دکھایا۔ سیاسی سماجی تمام لوگوں نے مل کر کام کیا تمام نے اپنی حیثیت کے مطابق متاثرہ لوگوں کے مدد کے لیئے حصہ ڈالا۔
Earthquake Victims
قارئین یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ عید بھی نزدیک تھی بہت سے لوگوں نے اپنی عید کی خوشیاں منانے کے بجائے ذلزلہ ذدگان کی مدد کو ضروری سمجھا لیکن 8 سال گزر جانے کے باوجود 8 اکتوبر 2005 کی نشانیاں شاید آج بھی کئی مقامات سے ملتی ہیں۔
قارئین اس مشکل کی گھڑی میں کام آنے والے تمام لوگوں کا ہمیں شکریہ ادا کرناہو گا اور زلزلے کی ذد میں آنے والے لوگوں کی بحالی کے لئے کوششیں جاری رکھنا ہوں گی لیکن 8 سال بعد آنے والے اس 8 اکتوبر سے چند روز قبل 24ستمبر 2013 کو ایک دفعہ پھر بلوچستان کی عوام کو ہولناک زلزلہ کا سامنا کرنا پڑا اس دفعہ زلزلہ کی شدت شاید 7ریکٹر سکیل سے کچھ زیادہ تھی اس زلزلہ سے ملحقہ علاقے بری طرح متاثر ہوئے۔
ہزاروں گھر تباہ اور ملبہ کا ڈھیر بنے لاکھوں خانداں اس کی ذد میں آئے۔ یہ وہ علاقے ہیں شاید یہاں علم نام کی کوئی چیز نہیں ہے کِسی کِسی مقام پر سڑک ہونا خراج تحسین ہے۔کچھ بلوچ رہنما اپنے آپ کو اس علاقے کا مالک سمجھتے تھے۔ لوگوں کو اپنا غلام سمجھتے ہیں اِن علاقوں میں بسنے والے لوگ اتنے مصوم ہیں کہ اتنی بڑی آفت آنے کے باوجود اِن کی عورتیں بچے بڑے اپنی تباہ حال گیھر و ں کے ملبوں پر بیٹھے ہیں تمام فلاحی تنظیمیں اور سرکاری لو گ ان کو کھانا راشن دیتے ہیں۔
قارئین شاید یہاں موجود شدد پسند کچھ گروہوں سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ہو رہا شاید انہوں نے اسی وجہ انہی علاقوں میں لگے امدادی خیموں کو آگ لگا دی پاک آرمی پر5سے زائد بار حملہ کیا اور زلزلہ ذدگان کی مدد کیلئے آنے والے سامان کو چورانے کی کوشش کی۔
لیکن جو کچھ بھی ہو ہمیں مصیبت کی اس گھڑی میں متاثرہ بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑنا ہو گا۔ 8سال پہلے کی طرح ایک ہونا ہو گا۔ پاک آرمی اور فلاحی تنظیموں کا ہاتھ تھامناہو گا ۔ اپنی عید کی خوشیوں کا کچھ حصہ ان میں بھی بانٹنا ہوگا اور تمام سیاسی رہنما وں کو چاہے وہ عمران خان ہو یا مولانا فضل الرحمن سب کو میاں شہباز شریف کی طرح ہمت کرنی ہو گی۔ جو بیماری کی حالت میں بھی ان میں موجود دکھی انسانیت کے دکھ بانٹنے چلے گئے ۔ہمارے تمام سیاسی سماجی رہنمائوں کو اس مشکل کی گھڑی میں ایک ہو کر زلزلہ ذدگان کی بحالی کیلئے کا م کرنا ہوگا۔
کل تک تو چمن تھا آج صحرا ہوا اے گلشن تجھے دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہوا