ابولکلام آزادی کی پیشنگوئی تھی کہ پاکستان 25 سال بعد ٹوٹ جائے گا۔ہندوستان نے تو بظاہر پاکستان توڑنے میں کوئی بڑا کردار ہمارے اقتدار کے بھوکے لوگوں سے پہلے ادانہیں کیا تھا۔مگر جب اسے پکی پکائی ملنے کا احساس ہوا تو اُس نے اس گیم میں 1971 میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ اگر ہمارے ڈنڈا بردار چاہتے تو ابوالکالام کی پیشنگوئی کو نا کام بنا سکتے تھے۔مگر ایساکرنے سے گریز کیا گیا۔تاریخ ایک عبرت کدہ صرف اُن لوگوں کے لئے ہوتی ہے جو اس کی بے رحمی پر بھی توجہ دیتے ہیں اوراپنے زخموں کو چاٹ کراپنے ماضی کے بد نما داغ کو بھی دھونے کی کوشش کرتے ہیں۔تاکہ ماضی کے زخم مندمل کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں۔
ہر سال ماہِ دسمبر جہاں ہم اپنے سیاسی اور سچے رہنما کی پیدائش کاجشن منانے سے پہلے اپنے چغادریوں کے کرتو توں کی چتا پرنو نو آنسو بہانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے گناہوں کی انتہا اسی دن ہوگئی تھی جب ہم نے اپنے ہم وطنوں کو غیر جان کر اُن کے حقیقی مطالبے کو فراموش کر کے ٹینکوں اور توپوں کے دہانے اپنے بھائیوں پرکھول دیئے تھے ا ور نعرہ یہ لگایا تھا’’ ہمیں لوگ نہیں زمین چاہئے‘‘ بندوق برداروں نے پاکستان کی مشرق کی سر زمیں پر انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کر دیئے تھے۔ جنہیں اس وطن کا محافظ سمجھا تھا وہ ہی اس کے قاتل نکلے! اور پھر شان ڈھٹائی سے اپنے بڑے دشمن کے سامنے بجائے شہادت کے اُلٹے اسلامی تاریخ پر سیاہ دھبہ لگا کر بھی اپنے کرتوں سے رجوع کرنے کی بجائے سینہ پھلا کر چلتے دیکھے گئے۔
1960اور1965 کے دوران مشرقی پاکستان معاشی گروتھ 2.6 فیصدتھی جبکہ بیرونی امداد کا بھی بڑا حصہ مغربی پاکستان پر لگادیا جاتا تھا۔اسی طرحبنگالی رہنماؤں کے مطابق مشرقی پاکستان کے زرِ مبادلہ کا بڑا حصہ مغربی پاکستان پر لگا دیا جاتا تھا۔اسی طرح پاکستان میں بڑے پیمانے پر صنعتیں مغربی پاکستان میں لگائی گیءں اور مشرقی پاکستان میں اکا دُکا صنعتیں لگائی گئیں۔ اس سلسلے میں مشرقی پاکستان کو ظامانہ طریقے پرفراموش کیا گیا تھا۔
1966میں شیخ مجیب الرحمان اور ان کی عوامی لیگ پاکستان کی ایک بڑی اور مستقل اپوزیشن پارٹی کے رہنما کے طور پر منظر عام پر ایوب خان کی مشرقی پاکستان سے نفرت کے نتیجے میں آچکے تھے۔ 1968میں ایوب خان نے مجیب الرحمٰن اور 34افرادکے خلاف اگرتلہ سازش کیس تیار کریا اورکہا گیا کہ اگرتلہ کے مقام پر ان لوگوں نے ہندوستانی فوجی افسران کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف سازش تیار کی ہے ۔جس میں ان لوگوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ۔جس سے 1969میں بنگال میں مغربی پاکستان اور اسٹابلشممنٹ کے خلاف شدید نفرت نے جنم لیا۔ اسی دوران مشرقی پاکستان میں ایک انتہائی خطر ناک سائیکلوںآیا۔ تو اس سے ہزاروں جانوں کا نقصان اور ہوا اور مشرقی پاکستان میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔شیخ مجیب کے کہنے کے مطابق مشرقی پاکستان کو دنیا سے ملنے والی امداد کا بھی بڑاحصہ بقول اُن کے جنرلز ہضم کر گئے۔جس کے نتیجے میں ایوبی آمریت کے خلاف جب پورے پاکستان میں ایجی ٹیشن عروج پر پہنچے تو اس ڈکٹیٹر ایوب خاں کو استعفیٰ دے کر بھاگنا پڑ گیا اوراپنے ایک معتمد جنرل ، یحی ٰ خان کو دوسرا مارشل لاٗ ایڈمنسٹریٹر بنا کا اقتدار اس کے حوالے کر دیا۔
بلا شبہ تاریخ کا پاکستان میں سب سے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن اپنے وعدے کے مطابق دوسرے ڈکٹیٹر جنرل یحیٰ خان نے کرا تو دیئے مگر یہ بھی سیاسی سازشوں کا حصہ بن گئے۔ شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کی پارٹی عوامی لیگ نے 162 نشستوں پربھاری اکثریت سے منتخب ہو گئی۔ اس کے مقابلے میں ذولفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی صرف 62ووٹوں سے کامیاب ہوئی مگر تعجب خیز امر یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں اس کا ایک بھی کنڈیڈیٹ کھڑا نہ کیا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مجیب الرحمان پاکستان کا مخالف تھا اور وطن توڑنے کا حامی تھا تو اُس نے مغربی پاکستان میں اپنے کنڈیڈیٹ کیوں کھڑے کئے؟جیت تو اسے مشرقی پاکستان سے ہی ہر صورت میں ملنا ہی تھی۔ذولفقار علی بھٹو نے مشرقی پاکستان میں اپنے نمائندے کھڑے کیوں نہیں کئے؟عوامی لیگ کی اس انتخاب میں کامیابی سے پاکستان میں سب سے زیادہ پیٹ میں درد پاکستان کی اسٹا بلشمنٹ اور فوجی ٹولے کے ہوا جس کو اس زمانے میں بنگالی کا چہرہ زہر لگ رہا تھا ۔
اس ٹولے نے اس ملک میں کھبی بھی مکمل طور پر جمہوریت کو نہ پنپنے دیا اور نہ ہی چلنے دیاہے۔جس میں ذولفقار علی بھٹو بھی شامل ہوگئے تھے۔ دوسری جانب اقتدار کے بھوکے ذولفقار علی بھٹو مجیب الرحمنٰ کی اس جیت سے بے حد پریشان بھی تھے۔کیونکہ ایوب خان کے خلاف مغربی پاکستان میں چلنے والی تحریک کے روح رواں یہ ہی تھے اور سمجھتے تھے کہ مارشل لاء کی اس پروڈکٹ کا پا کستان پر سب سے زیادہ حق ہے۔جس کی وجہ سے انہوں نے عوامی لیگ کے اقتدار میں ہر ہر مقام پر رخنہ اندازی کی۔جب بنگالیوں کا اقتدار کا مطالنہ بڑھا اور ان کو اقتدار نہ دینے کا مظاہرہ کیا جانے لگا توہندوستان کیسرپرستی میں ایک مزحمتی گروہ کو مکتی باہنی کے نا سے تربیت دے کر مژرقی پا کستان میں پاکستان کے خلاف سیول جنگ کا آغاز کر دیا گیا۔توہمارے ایک جنرل بجائے آگ ٹھنڈی کرنے کے اور شعلوں کو ہوا رعونت سے یہ کہہ کر دی کہ’’ ہمیں لوگ نہیں زمین چاہئے ہے !‘‘ جنرل اے کے نیازی نے بزدلی دکھا کر ابولکلام آزاد کے کہے ہوئے الفاظ کو امر کر دیا۔
لہٰذا26 مارچ 1971کومشرقی پاکستان میں آپریشن سرچ لائٹ بنگالیوں کے خلاف شروع کر دیا گیا۔تاکہ جمہوریت کا گلا دبا کر اپنی من مرضی کا مقتدر راج سنگھا سنگ پر بیٹھا کر اپنے اقتدار کے چسکے کو ٹوٹنے نہ دیا جائے۔مذکورہ آپریشن بنگالیوں کے خلاف 9ماہ تک بھرپور ظالمان کروفر کے ساتھ جاری رہا،مگر مکتی باہنی ان کے مد مقابل رہی۔اس آپریشن میں ہزاروں پاکستانی بنگالی لقمہ اجل بنا دیئے گئے۔کیونکہ پاکستانی اسٹابلشمنٹ بظاہرمجیب الرحمٰن سے اسکے سیاسی نعروں کی وجہ سے شدید نفرت کرتی تھی اور اس منتخب شخص کو پاکستان کاوزیرِ اعظم کسی طور پر نہیں بننے دیناچاہتی تھی۔ حالانکہ یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے الیکشن کے بعد مجیب الرحمٰن نے واضح کر دیا تھا کہ اُس کے ’’چھ نکات کوئی قرآن کا فرمان نہیں ہیں‘‘ فرض کر لیں کہ وہ چھ نکات کا ہی امپلی منٹیشن چاہتاتھا۔تو بھی پاکستان کو ٹوٹنے سے بچایا جاسکتا تھا۔ایک ڈھلی ڈھالی کنفیڈریشن کی شکل ت پیدا کی جا سکتی تھی۔مگر پھر بھی مجیب اور بھٹو جیسے سیاست دانوں کی موجودگی میں ڈنڈے سے پاکستان چلانے والوں کی دال نہ گلتی اور ڈنڈابردار اقتدار کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیا جاتا۔اسی طرح اقتدار کے لالچ میں ذولفقار علی بھٹو جیسا شارپ مائنڈڈ سیاسی رہنمابھی دھوکہ کھا گیا اور آخر کار انہی کے ذریعے جال میں پھنس کر پھانسی کے پھندے پر جھول گیا! یہ بھی حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے پاکستان توڑنے کاکھیل کھیلاوہ تینوں کردار بے نام و نشان ہوگئے اور تینوں کی موت عبرت کا نشان تھی۔
Shabbir Ahmed
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 shabbirahmedkarachi@gmail.co