تحریر : شیخ خالد ذاہد وقت کو جیسے گزرنا ہو وہ اسی طرح گزرتا ہے، ہماری خداداد صلاحیتیں وقت کو اچھا اور برا بنا لیتی ہیں۔ حضرتِ انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیا گیا ہے، درجے کی مناسبت سے فطرت میں جلد بازی کا عنصر قدرت ہی سمجھ سکتی ہے۔ اس جلد بازی کا شکار لگ بھگ ہر فرد ہی ہے۔ وہ بھی جو کچھ نہیں کر رہا اور وہ بھی جو سب کچھ رہا ہے۔اس جلد بازی سے نجات کیلئے ایک انتہائی کٹھن علاج بھی قدرت نے رکھا ہے اور اس علاج سے فارغ ہونے والے اللہ کے ولی کہلوائے جاتے ہیں اور بطور صابر و شاکر دنیا میں جانے جاتے ہیں، یہ قدرت سے تعلق جوڑنے کا سب سے “بنیادی جز” ہے۔ اس علاج کو ہم “ریاضت” یا ہندی زبان میں “گیان” کے لفظ سے جانتے ہیں۔ بھاگم بھاگی کے اس دور میں یہ الفاظ صرف پڑھنے کو ملتے ہیں وہ بھی کسی پرانے دھرانے لکھنے والے کی تحریروں میں۔ ایسا ہمیشہ سے ہی ہوگا مگر عرصہ دراز قبل وقت بہت طویل ہوا کرتے تھے۔ باتیں ختم ہوجاتیں تھیں مگر وقت پھر بھی بچ جاتا تھا، سونے والے سو سو کر تھک جاتے تھے وقت پھر بھی بچ جاتا تھا۔ جب وقت تھا تو قربت کے ذرائع محدود تھے۔ اب یہ ذرائع لاتعداد ہو چکے ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ وقت نہیں رہا۔
مغرب اور مشرق کی تفریق کے حوالے سے ہماری ہر دلعزیز بانو قدسیہ صاحبہ (جو گزشتہ دنوں داستان سرائے کو سونا کر کے داستان گو کے پہلو میں چلی گئیں) کا ناول “حاصل گھاٹ” انتہائی مفید ہے۔ آپ نے بہت وضاحت سے اس فرق کو واضح کیا ہے جس کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ “مغرب مادہ پرستوں کا معاشرہ ہے اور طبعی چیزوں سے، جسم سے محبت کرتا ہے جبکہ مشرق کی روایات اور لوگ روحانیت کے ماننے والے ہیں اور صورت سے زیادہ سیرت پر یقین رکھتے ہیں”۔ گوکہ ہمارے لئے یہ تفریق کی وضاحت ہے مگر اس وضاحت کے بغیر اس تفریق کو سمجھنا کسی حد تک نا ممکن ہوسکتا ہے۔ مغرب والے روحانیت کی دائمیت کو آہستہ آہستہ سمجھتے چلے گئے مگر یہ جن کا خاصہ تھا وہ بھٹک گئے اور مادیت کی طرف مائل ہوتے چلے گئے۔ ہم اب ایسی کیفیت سے دوچار ہیں جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ “کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا”۔ ہم اپنی چال بھولتے جارہے ہیں۔
Social Media
سماجی میڈیا کے توسط سے ہم سب کو بہت اچھی اچھی باتیں، واقعات اور معلومات مطالعہ کیلئے مل جاتے ہیں۔ سماجی میڈیا کہ توسط سے بڑے بڑے خود ساختہ فلاسفر وجود میں آتے جا رہے ہیں۔ایسے ہی کسی فلاسفر کے ذہن کی تخلیق کردہ یہ تحریر جو کہ آج کل سماجی میڈیا پر بہت گردش کر رہی ہے وہ یہ کہ “ایک پوتا اپنے دادا سے پوچھتا ہے کہ داداجان! آپ لوگ پہلے کیسے رہتے تھے۔ نہ کوئی ٹیکنالوجی تھی، نہ کوئی جہاز، نہ ٹرین، نہ انٹرنیٹ، نہ کمپیوٹر، نہ ڈراما، نہ ٹی وی، نہ اےسی، نہ گاڑیاں اورنہ ہی موبائل ؟ دادا نے بہت ہی خوبصورت اور سبق آموز جواب دیا کہ جیسے تم لوگ اب رہتے ہو۔ نہ نماز، نا قرآن، نہ روزہ، نہ زکوہ، نہ شفقت، نہ محبت، نہ آداب، نہ اخلاق، نہ شرم اور نہ حیاء”۔ ہمیں نہیں معلوم پوتے کو شرمندگی ہوئی یا نہیں ہوئی مگر سچ پوچھئے تو ہمیں واقعی سبق ملا کہ ہم لوگ وقت کے نا ہونے کا بہانہ بنا کر اپنے بزرگوں کی صحبت سے محروم ہوئے جارہے ہیں اور معاشرتی اقدار سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ دادا اور پوتے کی باتوں میں اگر فرق دیکھا جائے تو بانو آپا کا بتایا گیا فرق یعنی “مادیت اور روحانیت” کا ہی نظر آئے گا۔
انسان اگر اپنے کسی جسمانی اعضاء سے محروم ہوجائے تو وقتی تکلیف کے بعد اس محرومی کا کوئی نا کوئی حل یا متبادل نکال ہی لیتا ہے مگر ہم جس محرومی کا تذکرہ کر رہے ہیں یہ ایک ایسی محرومی ہے جو ہمارے لئے وقت کے ساتھ ساتھ ہماری جسمانی کمزوری سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کرتی چلی جاتی ہے۔ اسے معاشرتی اقدار سے محرومی کے نام سے جانا جاتا ہے ہر فرد اس کے نام سے واقف نہیں ہے مگر اس بیماری میں مبتلا ضرور ہےہم لوگوں میں رہتے ہیں مگر اکثر لوگ ہمیں واجبی اہمیت یا حیثیت دیتے ہیں۔
ہمارے لئے سوچنے اور سمجھنے کا وقت آن پہنچا ہے آج اکیسویں صدی میں جب دنیا تکنیک اور ترقی کی بلندیوں کو چھو رہی ہے تو ساری دنیا ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہونے پر کیوں آمادہ ہوئی ہے، درپردہ اب سب کو بے ہنگم جسموں کرہیت آنے لگی ہے۔ آج دنیا پردے کو پسند کررہی ہے۔ یعنی مشرق اور مغرب کی تفریق ختم ہونے کا وقت آگیا ہے۔
ہمیں اپنا قبلہ درست کر لینا چاہئے، ہمیں اپنی لائنیں خود ہی سیدھی کر لینی چاہئیں۔ یہ باتیں یہ بحث بہت معمولی نوعیت کی معلوم ہوسکتی ہے مگر اس کی اہمیت کا علم آپ کو اپنی آنے والی نسلوں میں بہت واضح دیکھائی دے گا۔ جب بہت دیر ہوچکی ہوگی اور ریت کا یہ مسافر ریت کے راستے پر پلٹ نہیں سکے گا، بس بہت اونچی عمارت کی بالکونی میں کھڑے سگریٹ سلگائے بوڑھے کی طرح صرف دیکھتا رہ جائے گا۔