جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ایسٹر کے مسیحی تہوار کے دنوں میں ملک میں سخت تر لاک ڈاؤن کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کا اعلان پیر کو کیا تھا، جس پر خاصی تنقید سامنے آنے کے بعد انہوں نے دلی معذرت کا اظہار کیا۔
میرکل نے ملک کی سولہ وفاقی ریاستوں کے سربراہان حکومت کے ساتھ طویل آن لائن مشاورت کے بعد بائیس مارچ کو اعلان کیا تھا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی شرح اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ اپریل کے پہلے ہفتے میں ایسٹر کے مذہبی تہوار کے دنوں میں پورے ملک میں سخت تر لاک ڈاؤن نافذ کر دیا جائے گا۔
یہ سخت تر لاک ڈاؤن یکم اپریل سے لے کر پانچ اپریل تک نافذ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ان پانچ دنوں میں سے تین دن (گڈ فرائیڈے، ایسٹر سنڈے اور ایسٹر منڈے) کو پورے ملک میں ویسے ہی عام تعطیل ہوتی ہے، لیکن اس بار حکومت نے جمعرات یکم اپریل اور ہفتہ تین اپریل کو بھی ریسٹ ڈے قرار دے دیا تھا۔
اس کا مطلب یہ ہوتا کہ ہفتے کے دن چند گھنٹوں کے لیے صرف اشیائے خوراک کی مارکیٹیں کھلنے کے علاوہ تقریباﹰ پانچوں دن ہی جرمن معیشت اور عوامی زندگی بند ہو کر رہ جاتی۔
یہ فیصلہ معیشت کے لیے اچھا تو نہیں تھا مگر میرکل نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اگر جرمنی کو کووڈ انیس کی وبا کی تیسری ہلاکت خیز لہر سے بچانا ہے، تو ایسا کرنا پڑے گا۔
اس حکومتی فیصلے کے بعد انگیلا میرکل اور صوبائی حکومتی سربراہان پر عوامی اور کاروباری شعبے کی طرف سے شدید تنقید کی جانے لگی تھی کہ نیت چاہے اچھی تھی، مگر ایسا کرتے ہوئے اس عمل کے نتائج کو کافی حد تک پیش نظر نہیں رکھا گیا تھا۔ مزید یہ کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مشاورتی اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کافی حد تک ریاستی حکومتوں پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ اس فیصلے پر کس طرح عمل درآمد کرنا چاہتی تھیں۔
اقتصادی شعبہ پہلے ہی کورونا وائرس کی وبا اور طویل لاک ڈاؤن کے باعث بری طرح متاثر ہوا ہے۔ کاروباری حلقوں کو شکایت تھی کہ مسلسل پانچ دنوں تک پورے ملک کو بند رکھنے کی اقتصادی قیمت کیا ہو گی اور آیا جرمنی یہ قیمت چکانے کے لیے تیار ہے۔
اس تنقید کے تناظر میں چانسلر میرکل نے بدھ کے روز اپنے ایک مختصر پیغام میں اعتراف کیا کہ ایسٹر کے دنوں میں سخت لاک ڈاؤن کا فیصلہ کافی زیادہ عوامی بے یقینی کی وجہ بنا ہے، جس پر انہیں افسوس ہے اور وہ دل سے معذرت خواہ بھی ہیں۔