تحریر: شاہ فیصل نعیم آئے ہیں کچھ ایسے لوگ بھی اس جہاں میں جن کا کوئی پتا نہیں چلا کہ وہ کب آئے اور کب چلے گئے، کچھ ایسے بھی تھے جن کے آنے کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر جب وہ اس دنیا سے گئے تو لوگوں کے لب پر اُن کے ترانے تھے اور کچھ کی زندگی صرف سانسوں تک ہی محدود رہی جیسے سانسوں کی مالا ٹوٹی دنیا نے اُنہیں فراموش کردیا۔
پھر مشرقی افق پر ایک ستارہ چمکاجس کی روشنی سے دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا گئیں، جیسے جیسے وہ زندگی کے سفر میںآگے بڑھتا گیا دنیا اُس کی لپیٹ میںآتی گئی اور جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے اُس کا فیضان دنیا میں پھیلتا جارہا ہے۔ دنیا اُس کی زندگی سے رہنمائی طلب کر رہی ہے وہی دنیا جس نے جیتے جی اُسے پاگل اور کافر جیسے خطاب دئیے تھے۔وہ شاعرِ مشرق، مرید رومی ، درویشِ سیالکوٹی، قلندرِ لاہوری، مفکرِ پاکستان اور حکیم الامت سرعلامہ محمد اقبال کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔
میں جب بھی مزارِ اقبال پہ جاتا ہوں تو مجھے اقبال کی ذات پہ رشک آتا ہے کہ یہ بندہ کتنا بڑا کام کر گیا ہے ۔ میں سوچتاہوں کہ یہ کوئی ایسا حکمران بھی نہیں تھا جس کے پایہِ تخت کے سامنے دنیا جھکتی ہو، اس کی کوئی ایسی سلطنت بھی نہیں تھی جس کی حدود کا عالم یہ ہو کہ سورج طلوع بھی وہاں اور غروب بھی وہی ہوتا ہو، اقبال کی حکمرانی لوگوں پر نہیں بلکہ اُن کے دلوں پر تھی ، لوگوں پر حکمرانی حکومت کے ختم ہوتے ہی ختم ہو سکتی ہے مگر دلوں کی سلطنت پہ براجمان لوگوں کے اقتدار کا سورج کبھی زوال پذیر نہیں ہوتا۔
Badshahi Mosque
بادشاہی مسجد مغلیہ دور کے نوادرات میں سے ایک شہکار کی حیثیت رکھتی ہے جہاں ہر روز سینکڑوں لوگ سیاحت کے لیے آتے ہیں اور اس فن پارے کے تخلیق کاروں کو دادِتحسین پیش کرتے ہیں اس کے قرب وجوار میں جہاں مغلیہ دور کی بہت سی یادیں بکھری پڑی ہیں وہاں آپ کو دو درگاہیں بھی ملیں گی۔ اگر آپ بادشاہی مسجد کے مرکزی دروازے سے باہر نکلیں تو دائیںطرف شاعرِمشرق کا مزارِپُر انوار ملے گاجہاں ہر وقت زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے بڑی بڑی ہستیاںعقیدت کے پھول نچھاور کرنے کے لیے یہاں قدم رنجا فرمانا اپنے لیے باعثِ صد افتخار سمجھتی ہیں۔
اب اگر مسجد کے مرکزی دروازے سے بائیں جانب دیکھیں تو ایک مزار وہاںبھی ملے گاچاہے رت اور زمانہ وہی ہو لیکن سماں کچھ اور ہوگایہاں پر لوگ خریدوفروخت ،کھانے پینے ،غل غپاڑہ اُڑانے اور عاشقی معشوقی میں مست نظر آئیں گے کوئی ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگتاہو انظر نہیں آئے گا۔اردگرد پڑا ہوا کوڑا کرکٹ تو دور کی بات سردار ا سکندرحیات خان کی مرقد پر پڑی ہوئی خاک بھی کوئی صاف کرتا ہوا نظر نہیں آئے گایہ وہ لوگ تھے جو لوگوں پر حکومت کرتے تھے جیسے ہی ان کا تختہِ اقتدار اُلٹا لوگوں نے انہیں فراموش کردیا۔اقبال کے مزار پر کیوں آج بھی گہماگہمی ہے؟کیوں لوگ لمبے لمبے سفر طے کرکے یہاں آتے ہیں؟اس لیے کے اقبالکی حکمرانی لوگوں پر نہیں دلوں پر تھی اس لیے اقبال کانام آج بھی زندہ ہے اور رہتی دنیا تک زندہ رہے گامتلاشیانِ علم چشمہِ فیض سے فیض پاتے رہیں گے اور لوگوں کے من روشن ہوتے رہیں گے۔
Allama Iqbal Teachings
اگر ہم اقبال کی تعلیمات کا موجودہ حالات کے تناظر میں جائزہ لیں تو ہمارے پاس سر شرم سے جھکانے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں گا۔ آج مسلمانوں خاص کر نوجوان طبقے کی ترجیحات ہی بدل گئی ہیں ۔ ایک وقت تھا جب لوگوں کے آئیڈیل بڑے بڑے عظیم لوگ ہوا کرتے تھے جن کی زندگی اُن کے چاہنے والوں کے لیے ایک کھلی کتاب ہوتی تھی انسان جس باب سے چاہتا رہنمائی پاتا مگر آج کا انسان ذرا مختلف ہے جو اپنے آئیڈیل چنتے وقت پاپ سٹارزاور اداکاروں وغیرہ سے آگے سوچتا تک نہیں۔ اکثریت کی زندگیوں کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح یہ ملک چھوڑ کر دیارِ مغرب میں جا بسیں۔ اہل مغرب کی عکاسی کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا۔
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہیں کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا آج کے اس دور میں اقوامِ عالم میں اپنا کھویا ہوا وقار پھر سے حاصل کرنے کے لیے ہمیں ضرورت ہے اقبال کی تعلیمات سے رہنمائی کی۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا