تحریر : مرزا روحیل بیگ دسمبر آتا ہے تو ڈھاکہ کا سکوت ایک بار پھر آنکھوں کو سرخ کر دیتا ہے۔ مسلمانان ہند کی قربانیوں کی رائیگانی خون رلانا شروع کر دیتی ہے۔ دسمبر کا مہینہ، 16 دسمبر 1971 کی منحوس یادوں کو بھی تازہ کر دیتا ہے۔ سقوط ڈھاکہ ہو یا اس سے پہلے کے سقوط بغداد و سقوط غرناطہ ان سب کے ظہور میں بنیادی غلطیاں ” سیاسی ” ہوا کرتی ہیں۔ پاکستان توڑنے کی سازش بلاشبہ شیخ مجیب الرحمان اور بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کی۔ بھارت نے ملک کے دونوں بازؤوں کے درمیان حائل ایک ہزار میل کے فاصلہ اور جغرافیائی لحاظ سے متصل ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستان میں سازشوں کا جال بچھانے اور نفرتوں کے بیج بونے شروع کر دیئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 1949 تک مشرقی پاکستان کو خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑا اس کے سدباب کے لیئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ پاکستان، بھارت کے درمیان ستمبر 1965 کی جنگ نے ایک پروپیگنڈا کے ذریعے مشرقی پاکستان کے عوام کو یہ احساس دلایا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان کے ہاتھوں میں ہے۔
فروری 1952 کے بعد ” اگرتلہ ” سازش کیس 1966 میں ہوا۔ ” اگرتلہ ” مشرقی پاکستان کا وہ سرحدی بھارتی علاقہ تھا جہاں پر پاکستان توڑنے کی سازش تیار کی گئی۔ عوامی لیگ نے شیخ مجیب کی گرفتاری کے خلاف 7 جون 1966 کو جنرل اسٹرائیک کا اعلان کر دیا۔ جس کے نتیجے میں شدید خونریزی ہوئی۔ 41 افراد پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ فروری 1966 میں عوامی لیگ کے ایک اجلاس میں شیخ مجیب الرحمن نے 6 نکات کا اعلان کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ ایک وفاقی حکومت ہونی چاہیئیجو کہ خارجہ اور دفاع کے معاملات کی نگرانی کرے۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کی علیحدہ علیحدہ کرنسی ہو۔ ٹیکس صوبائی سطح پر ہوں۔ وفاقی حکومت فنڈز دینے کی آئینی گارنٹی دے۔ اپنے اپنے فارن ایکسچینج کنڑول کریں اور دونوں یونٹ اپنی اپنی ملٹری اور پیراملٹری فورسز رکھ سکیں۔ جنرل ایوب خان کی پیدا کردہ نفرت کی وجہ سے یہ مطالبات سامنے آئے۔مئی 1966 میں شیخ مجیب الرحمن اور ان کے کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر پاکستان توڑنے کا ” اگرتلہ ” سازش کا الزام تھا۔ 1967 میں فوج سے تعلق رکھنے والے کچھ بنگالی فوجیوں کی گرفتاری عمل میں آئی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ہندوستان سے سازباز کر کے ملک کو توڑنے کی سازش کی۔ ” اگرتلہ ” سازش کیس اور مجیب کے چھ نکات کو بنگلہ زبان کے اخبارات نے نمایاں جگہ دینی شروع کر دی۔
مغربی پاکستان کے اردو اخبارات نے مجیب کو غدار قرار دینا شروع کر دیا۔ مشرقی پاکستان کی صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی تھی۔ عوامی لیگ کے طلباء تنظیم ” چھاترو لیگ ” نے احتجاجی تحریک شروع کر رکھی تھی۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک شدت اختیار کرتی جا رہی تھی۔ 1969 میں مشرقی پاکستان کا شمالی شہر ” پاربتی پور ” میں ایک سازش کے تحت ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک کو توڑنے کے لیئے بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کے درمیان تصادم کرا دیا گیا۔ سنگین سیاسی صورتحال کو سنبھالنے کے لیئے جنرل ایوب خان نے شیخ مجیب الرحمن کو رہا کر دیا۔ ملک میں شدید سیاسی بحران آ گیا جس کے نتیجہ میں جنرل ایوب خان نے 25 مارچ 1969 کو اقتدار سے علیحدہ ہو کر جنرل یحیی خان کو سونپ دیا۔ جنرل یحیی خان نے مارشل لاء نافذ کر دیا اور 1970 کو ملک میں عام انتخاب کا اعلان کر دیا۔ 7 دسمبر 1970 کو ملک بھر میں عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ نے 162 میں سے 160 نشستیں جیت لی تھیں۔
دوسری بڑی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی قرار پائی جس نے پنجاب میں 82 میں سے 62، سندھ سے 27 میں سے 18 اور صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) میں 25 میں سے ایک نشست حاصل کی۔ ان انتخابات کو ملکی اور غیر ملکی مبصرین نے پاکستان کی تاریخ کے پہلے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات قرار دیا۔ اس کے باوجود ان انتخابات کے نتائج کو کھلے دل سے تسلیم نہ کیا گیا۔ پاکستان کو دولخت کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے ملک سے زیادہ پارٹی اور ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔ جنرل یحیی خان جنوری 1971 میں ڈھاکہ جاتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ڈھاکہ میں ہو گا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ڈھاکہ میں بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی پارٹی کے ارکان کو شریک نہ ہونے کی ہدایت کی۔ جنرل یحیی خان اسلام آباد آتے ہی اپنا وعدہ بدل دیتے ہیں۔
اس وعدہ خلافی پر مشرقی پاکستان میں طوفان کھڑا ہوا۔ میجر ضیائالرحمن نے ایک پلاٹون کے ساتھ ریڈیو پاکستان چٹاگانگ پر قبضہ کر کے آزاد بنگلہ دیش کا اعلان کر دیا یہ وہی میجر ضیاالرحمان تھے جو بعد میں میجر جنرل ضیا الرحمان صدر بنگلہ دیش بنے۔ اس احتجاج کو دبانے کے لیئے 25 مارچ کو پورے مشرقی پاکستان میں آپریشن شروع کر دیا گیا۔ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے یہ اعلان کر کے کہ ” ہمسایہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے بھارت اس سے لا تعلق نہیں رہ سکتا” پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت پر گہرا وار کیا اکیس نومبر 1971 کو پانچ لاکھ سے زیادہ فوج کے ساتھ مشرقی پاکستان پر چاروں اطراف سے دھاوا بول دیا۔ اس وقت ہمارے پاس صرف تین ڈویژن فوج موجود تھی جن میں سے دو کے پاس تو بھاری اسلحہ بھی نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود جو حوصلہ، برداشت اور ثابت قدمی مشرقی پاکستان گیریژن نے دکھائی وہ اپنی مثال آپ تھا۔ لیکن افسوس کہ پاکستان کی فوج کی بہادری اور شجاعت سے بھری ہوئی اس جنگ کو 16 دسمبر 1971 کو جس ندامت اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اسے صدیوں تک نہیں بھلایا جا سکتا۔
سولہ دسمبر کا ایک تلخ اور تاریک دن تھا، ادھر جیسے ہی ڈھاکہ کے پلٹن گراؤنڈ میں جنرل اے کے نیازی نے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کیئے تو اس کے ساتھ ہی دو قومی نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا جانے والا ملک خداداد دولخت ہو گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا یہ بیان کہ ” آج ہم نے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے کر پاکستان کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے” ان کیدل میں پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف چھپی نفرت کی عکاسی کرتا ہے۔ سقوط ڈھاکہ میں اہم کردار ادا کرنے والی غیر جمہوری اور غیر آئینی قوتیں آج بھی اسی طرح کارفرما ہیں۔ آج قوم سانحہ مشرقی پاکستان پر غمزدہ اور دل گرفتہ ہے۔ جناح کا پاکستان آج بھی سقوط ڈھاکہ کے زخم سے چور چور اپنے مجرموں کی نشاندہی کا مطالبہ کر رہا ہے اور چلا چلا کر کہہ رہا ہے کہ یہ وطن کسی اور سقوط ڈھاکہ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔