تحریر : حاجی زاہد حسین خان موزلے لو تفاح لے لو عنیب اور پرتگال لے لو ثوم بصل بھی ہے۔ جر جیرا اور خیار لے لو یہ وہ آوازیں تھیں جو سعودی مملکت کے قریہ قریہ گلی گلی شہروں قصبوں میں روزانہ ہمیں سنائی دیتیں یہ گلی گلی سبزی فروٹ سے بھری ریڑھیاں لئے پھرنے آوازیں دینے والے یمنی بھی ہوتے اور بنگالی بھی دونوں کے قد کاٹھ بھی اور لباس نیچے دھوتی اوپر رنگ برنگی شرٹیں اور سروں پر رومال عمامے اپنے قومی لباس میں ہوتے۔ صبح صادق کو ان پھیری والوں کا کام شروع ہوتا اور مغرب تک جاری رہتا۔ پہلے پہلے چوراہوں روڈ کناروں نکروں پر یہ اپنا مال بیچتے ۔پھر دن چڑھے یہ گلیوں اور بلڈنگوں کے نیچے اپنے اپنے سبزی فروٹ کی صدائیں دیتے ان کی صدائوں پر سعودی غیر سعودی خواتین دوسری تیسری منزلوں سے ریال ٹوکریوں میں ڈال کر نیچے لٹکاتیں اور یہ سبزی فروش وزن کر کے ٹوکریاں بھر کر اوپر مال بھیج دیتے۔ یا ملازمین کود آکر ٹوکریاں لے جاتیں۔ تازی سبزیاں تازے فروٹ بڑے بڑے کیلے گولڈن سیب طائف کے انگور اور مصر کے سکری مالٹے۔ دیکھ کر منہ میں پانی آجاتا۔ عموما سب جگہ ظہر تک ایک ہی ریٹ ہوتا۔ جو کہ بعد میں گرنا ہاف ہونے شروع ہو جاتا قارین عجیب بات یہ ہے کہ سارے عرب میں زمین سے اگنے والی سبزیاں اور درختوں پیڑوں پر لگے پھلوں کی تجارت تول کر وزن کر کے دی جاتی جن میں خصوصا کیلا مالٹا بھی شامل ہوتا۔ اردن اور شام لبنان سے آئے ہوئے شیریں کیلے ایک کلو میں چار پانچ ہی چڑھتے ۔ایک کیلا کھا کر لنچ کی ضرورت نہ رہتی۔
پالک کڑم پیاز دھنیہ چھوٹی چھوٹی گڈیاں نہیں گاہک کی چائس پر وزن کر کے ملتیں نہ بیچنے والے کا نقصان اور نہ ہی خریدنے والے کو خسارہ اندر اور باہر ایک اور نہ ہی پانی سے دھلائی ایک صبح ہمارے مکان والی گلی میں یمنی ریڑھی بان تازہ مال لئے کھڑا تھا ہم نے سوچا مال تازہ ہے لے کر رکھ جائیں ریٹ پوچھ ہی رہے تھے کہ گاڑی آگئی ، شام کو جب واپس آئے تو پھر ریڑھی والا نظر آگیا۔ ریڑھی آدھی ہو چکی تھی۔ سب مال آدھا بک چکا تھا مگر ساتھ ساتھ اس کا ٹپ بھی آدھا ہو چکا تھا۔ ہم حیران ہوئے ایسا کیوں ۔ یا اخی تمیں نقصان نہیں ہوتا۔ وہ بولا ہم ظہر تک اپنی رقم پوری کر لیتے ہیں عصر کے بعد آدھی قیمت میں ہمارا منافع اور مغرب کے بعد ریڑھی خالی کرنے کے لئے بچا مال ڈھیری کی صورت میں اُک تُک گاہک کو خوش رکھنے کے لئے صرف چند ریالوں میں دے کر یہ آئے وہ گئے ۔ پھر دوسری صبح تازہ مال نہ دھوکہ نہ فراڈ نہ گند نہ سڑا ند ۔ واہ کیا انکا کاروبار کیا ٹیکنیک تھی ۔ کرتے گزرتے ہماری وہاں آدھی زندگی گزر گئی جب اپنے ملک سدھارنے اپنے گائوں قریہ آئے تو یہاں کا بوا آدم ہی نرالہ تھا۔ ہر دس دوکانوں پر علیحدہ ریٹ ڈبل منافع دو دو دن کا مال پرانا گل جائے سڑ جائے کیا مجال روپیہ دو روپے کم ہوں۔ پالک کڑم کی چھوٹی چھوٹی گڈیاں وہ بھی تول کر نہیں گن گن کر اندر اور باہر اور لینی ہے تو لو ۔ بھنڈی اگر بیس روپے کی وہاں تو چالیس کی یہاں فروٹ کی تو بات ہی کیا۔
Vegetables Prices
پتھر نما سیب دانت ٹوٹنے کو آجائیں کیلا بھنڈی نما کیلا چند دانے بڑے باقی اللہ حافظ وہ بھی تول کر نہیں گن گن کر پہلے انڈیا سے لاتے رہے پھر نہ جانے کہاں کہاں سے اپنے ملکی تیتری کیلے کا یہاں نام نہیں۔ وہ بھی قدم قدم پر اپنے اپنے ریٹ ریڑھی والے بھی کوشش کرتے ہیں۔ مگر نہ ہونے کے برابر کریلا بھنڈی قیمتیں آسمانوں پر کلو لائیں گھر پہنچنے تک آدھا کلو کیا پکائیں اور کیا کھائیںَ اللہ کی پناہ ٹماٹر کبھی زمین پر اور کبھی آسمان پر چند دن قبل یہاں ہمارے شہر پلندری میں ایک سو بیس روپے کلو ۔ ایک دن ہمیں بھی ٹماٹر کھانے کو جی چاہا بازار گئے کوٹلی چوک پتہ کیا اسی روپے کلو سوچا سنٹر بازار شائد مگر وہاں سو روپے کلو چوک بازار سوچا یہاں شائد انتظامیہ نزدیک ہے مگر وہاں کا ریٹ ایک سو بیس تلیاں ملتے کرتے کیا نہ کرتے آدھ کلو لئے مگر ماتھے پر پسینہ چمکنے لگا رہا فرق ٹینڈے بھنڈی جو ساٹھ روپے کلو سن کر جی متلانے لگا گھر والوں کا الگ ڈر آج کیا پکائیں گے کھائیں گے۔
سبزی والے سے دامن بچایا ساٹھ روپے کے آلو لئے اور گھر کا راہ لیا کسی کو نہ خدا کا خوف نہ انتظامیہ کا ڈر تجارت کا ہنر نہ مال بیچنے کی تیکنیک رہ رہ کر ہمیں جدہ کے گلی کوچوں میں پھرنے والے یمنی بنگالی سبزی فروش بڑے یاد آتے اور خصوصا وہاں کی انتظامیہ کیا مجال کسی چیز کا وزن اونس کم ہو ۔ ریٹ زیادہ ہو مال بیکا ر ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کہاں کے کہاں اور ہم جتھے دی کھوتی اتھے کھلوتی نہ معاشرے کا عوام ملک کا آگے بڑھنے کا رجحان نہ انفرادی آگے بڑھنے کی لگن کیا بنے گا ہمارا جہاں سارے کا سارا آوہ ہی بگڑا ہو۔ جہاں گھر گھر بدیانتی جھوٹ فراڈ دھوکہ دہی نہ گھر کیا ہو وہاں حکومت انتظامیہ کا اللہ ہی حافظ ہے ۔قارئین ہمارے شہر پلندری سدہنوتی کے ڈسٹرکٹ آفیسران خصوصا ڈپٹی کمشنر طاہر صاحب کی یہاں دوسرے معاملات کو سدھارنے میں دن رات کوششیں جاری ہیں۔ گھر گھر پر خاص و عام کو فون کال کی سہولت کے ذریعے بدیانت چوری کرپشن سے پردہ اٹھانے ان تک اطلاع پہنچانے کا بڑا مثبت اقدام ہے مگر نہ جانے ان کے ناک کے نیچے یہ گراں فروش سبزی فروش جنہوں نے قدم قدم پر اپنی منافع کی دوکانیں سجھا رکھی ہیں اور اپنے اپنے من پسند بھائو تائو کے ریٹ بنا رکھے ہیں وہ کم از کم پلندری شہر کی حد تک ایک بھائو ایک دام رائج کروائیں تاکہ غریب مزدور طبقہ اور کم آمدنی والے کو ریلیف مل سکے۔ وہ اس لئے کہ سب سبزی فروش تاجران راولپنڈی کی ایک ہی منڈی اور ایک ہی دام سے مال خرید کر لاتے ہین۔ اگر مرکزی مندی خریداری کا دام ایک تا یہاں بلکہ آزاد ریاست کے ہر شہر میں قیمت فروخت بھی یکساں مقرر کی جا سکتی ہے۔ امید ہے کہ ہماری انتظامیہ اس اہم ایشو کا کوئی مستقل حل نکالے گی۔ اس طرح بتدریج سبزی فروٹ کے علاوہ دوسری اہم روز مرہ استعمال ہونے والی دیگر اشیاء کی قیمتیں بھی یکساں نرخوں پر ایک ہی دام پر لائی جا سکیں گئیں۔
قارئین اس بات کی سمجھ ہماری سمجھ سے ابھی تک بالا تر ہے کہ دنیا بھر میں کیلا جو سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے تول وزن کر کے خرید و فروخت کیا جاتا ہے مگر صرف ہمارے پاکستان مین صرف گنتی کی بنیاد پر خرید و فروخت کیا جاتا ہے جو کہ شرعی لحاظ سے غیر اصولی طور پر کسی کو چھوٹا کسی کو بڑا مکس گاہک کی جھولی میں ڈال کر کسی کو نقصان اور کسی کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ ہمارے ادھورے جمہوری سیاسی نظام کی طرح بقول اقبال یہاں بندوںکو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ خیر یہ الگ بحث ہے۔ قارئیں میں نے اوائل میں پھلوں سبزیوں کے عربی نام لکھے ہیں۔ یاد رہے موز کیلے کو تفاخ سیب کو عنیب انگورکو اور پرتگال مالٹے کو کہتے ہیں۔ اسی طرح غوطا ٹماٹر ثوم لہسن ، بصل پیاز اور خیار کھیرے کو کہتے ہیں۔ قارئین نام تو یاد ہو گئے مگر سمجھ نہیں آتا موجودہ صورت میں پھل پکائیں یا سبزیاں کھائیں۔ فیصلہ آپ پر۔۔۔۔
ہمیں تو مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے دور کہیں صحرا میں سراب نظر آتا ہے
Haji Zahid Hussain
تحریر : حاجی زاہد حسین خان پلندری سدہنوتی آزاد کشمیر hajizahid.palandri@gmail.com