ایبولا کو پاکستان سے دور رکھنے کے انتظامات

Ebola

Ebola

اسلام آباد (جیوڈیسک) وزارت برائے قومی صحت و سروسز نے کہا ہے کہ ملک بھر میں ایبولا وائرس سے نمٹنے کے لئے انتطامات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ دوسری جانب، عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں نمائندہ ڈاکٹر مچل تھرین نے اس حوالے سے پاکستانی حکومت کے اٹھائے گئے اقدامات پر اطمینان ظاہر کیا ہے۔

وزارت کا کہنا ہے کہ وائرس کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنے کی حکمت عملی طے کرنے کیلئے کئی اجلاس منعقد کئے گئے۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، کراچی کے جناح ہسپتال، لاہور کے سروسز ہسپتال، کوئٹہ میں فاطمہ جناح چیسٹ اور جنرل ہسپتال، پشاور کے ایبٹ آباد میڈیکل کامپلیکس، گلگت-بلتستان کے ضلعی ہیڈکواٹرز ہسپتال اور مظفر آباد کے عباس انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں خصوصی وارڈز بنائے گئے ہیں۔

اسی طرح، متعلقہ حکام کو ایبولا وائرس ڈزیز (ای وی ڈی) کے خطرہ کی روک تھام کے لئے مختلف اقدامات پر مشتمل ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہیں۔ وزارت کے ایک عہدے دار نے کہا کہ صوبوں میں ہسپتالوں کے سربراہان سے کہا گیا ہے کہ وہ ای وی ڈی کیسوں سے بروقت نمٹنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر آئی سولیشن کمرے بنائیں۔

انہوں نے بتایا کہ قومی ادارہ صحت، مرکزی صحت اسٹیبلشمنٹ اور ڈبلیو ایچ او نے ای وی ڈی کیسوں کی تشخیص اور روک تھام کے لئے مشترکہ طور پر ایک تربیتی سیشن کا انتظام کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صحت کا عملہ تمام پوائنٹس آف انٹریز (پی او ایز) پر چوبیس گھنٹے تعینات رہے گا تاکہ ای وی ڈی سمیت عالمی سطح پر تشویش کا باعث بننے والی کسی بھی ایمرجنسی سے نمٹا جا سکے۔

اسی طرح ملک کے تمام بڑے ایئر پورٹس پر ایبولا کے سکریننگ ڈیسک قائم کیے جائیں گے۔ پی او ایز پر ای وی ڈی کا کیس سامنے آنے پر صحت کے عملہ کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ایمرجنسی مینجمنٹ کے لئے بروقت صوبائی صحت کے محکموں سے رابطہ کریں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ای وی ڈی سے متاثرہ ملکوں سے آنے والے مسافروں کی معلومات شیئر کرنے کے لئے بھی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ پی او ایز پر تعینات صحت کا عملہ ایسے مسافروں کی ہسٹری لے گا اور ضرورت محسوس ہونے پر انہیں 21 دنوں تک الگ تھلگ زیر نگرانی رکھا جائے گا۔ جن مسافروں میں ای وی ڈی پائے جانے کا شبہ ہو گا انہیں ٹیرٹری کیئر ہسپتال منتقل کر دیا جائے گا۔

‘ڈبلیو ایچ او نے ہوائی اڈوں پر سکریننگ کی تجویز دی ہے تاکہ ای وی ڈی کی علامات رکھنے والے مسافروں کی نشان دہی ہو سکے’۔ ڈاکٹر تھرین کے مطابق، ڈبلیو ایچ او پاکستان میں وائرس کے داخلے کو روکنے کے لئے حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ ‘اگر کسی شخص میں وائرس کی تشخیص ہو جائے تو اسے فوری طور پر لوگوں سے دور ایک علیحدہ وارڈ میں منتقل کر دیا جائے۔’

رواں سال سامنے آنے والے اس ایبولا مرض سے مغربی افریقہ کے ملک متاثر ہوئے ہیں۔ ہر روز سینکڑوں ایبولا کیس سامنے آ رہے ہیں، بالخصوص گینیا، لائبیریا اور سیری لیون میں۔

ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق 17 اکتوبر تک اس مرض سے 4493 ہلاکتیں رپورٹ ہو چکی ہیں۔ ایبولا کا زور گینیا، لائبیریا اور سیری لیون میں ہے لیکن دوسرے ملکوں میں بھی ایسے مریضوں کی نشان دہی ہوئی ہے جن میں ان ملکوں سے دوران سفر یہ وائرس منتقل ہوا۔