ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) ترکی میں ہوش ربا مہنگائی اور معیار زندگی کی زبوں حالی پر عوام کی طرف سے احتجاج اور مظاہروں کے پیش نظر حکومت نے بنیادی ضرورت کی اشیاء پر ٹیکس میں واضح کمی کا اعلان کر دیا ہے۔
ہفتہ 12 فروری کی رات ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اشیا خوردنی پر عائد آٹھ فیصد ‘ویلیو ایڈڈ ٹیکس‘ کو کم کر کے ایک فیصد کرنے کا اعلان کر دیا۔ ایردوآن کا یہ فیصلہ سرکاری گزٹ میں شائع ہوا ہے اور پیر 14 فروری سے نافذ ہو جائے گا۔ ترک صدر نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ٹیکس میں رعایت کے بعد حکومت ‘توقع کر رہی ہے‘ کہ فوڈ کمپنیاں اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں سات فیصد کی کمی لائیں گی۔ ایردوآن کا کہنا تھا، ”فوڈ سپلائز یا اشیائے خوردنی کی قیمتیں افراط زر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔‘‘
ترکی میں مہنگائی
ترکی میں مہنگائی کی شرح بے حد بڑھی گئی ہے اور ترک عوام اس صورتحال سے بہت زیادہ پریشان ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں افراط زر کی سالانہ شرح 48.69 فیصد ہو چُکی ہے جبکہ آزاد ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شرح سرکاری شرح سے کہیں زیادہ یعنی 115 فیصد تک ہے۔ ترکی شدید مہنگائی کی وجہ ماہرین و ناقدین ایردوآن کی طرف سے سود کی شرح میں کمی کے اصرار کو ٹھہراتے ہیں۔ ایردوآن کا ماننا ہے کہ ان کے ملک میں افراط زر یا مہنگائی کی اصل وجہ سود کی بہت زیادہ بڑھی ہوئی شرح ہے۔ ان کا کہنا ہے، ”ہم مہنگائی کو ہر گز اپنی قوم کو کچلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘
ایردوآن حکومت نے ترکی کے مرکزی بینک کی آزاد حیثیت کو ختم کر دیا ہے۔ ترکی میں کچھ عرصے سے مہنگائی کی شرح کے ساتھ ساتھ ملکی کرنسی لیرا کی قدر میں غیر معمولی گراوٹ پیدا ہوئی اور گزشتہ دسمبر میں لیرا اپنی اب تک کی کم ترین قدر پر پہنچ گیا تھا۔ یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع اس ملک کی معیشت کا زیادہ انحصار درآمدات پر ہے۔ موجودہ حالات میں توانائی کی ضروریات، خام مال اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ انقرہ حکومت اپنے دلائل دیتے ہوئے کہتی ہے کہ ترکی کی معاشی بدحالی کی بنیادی وجہ بیرونی مداخلت اور بیرونی عوامل ہیں۔ ہفتے کے روز ترک صدر نے اپنے بیان میں کہا، ”ترکی تمام دستیاب ذرائع کی مدد سے اپنی معاشی تباہی کے خطرات کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گا۔‘‘
لیرا کی قدر و قیمت
ترکی میں اس ہفتے ڈالر کی قیمت کے مقابلے میں لیرا 13.49 کے ریٹ تک پہنچا جبکہ دسمبر میں لیرا کی یہ قدر میں 18.36 تک پہنچ گئی تھی۔ بعد ازاں انقرہ حکومت نے ایک نیا ‘فنانشل ٹول‘ یا مالیاتی طریقہ متعارف کروایا۔ تب سے ترک کرنسی لیرا کی قدر میں بہتری آئی ہے۔
ایردوآن حکومت بچت کرنے والے ترک باشندوں کو غیر ملکی کرنسی خریدنے سے گریز کرنے اور اپنے ڈالرز کو لیرا میں تبدیل کروا کے ایسی ڈیپازٹ اسکیموں میں جمع کروانے کی ترغیب دے رہی ہے جہاں ان کا سرمایہ کرنسی کے اتار چڑھاؤ سے محفوظ رہے۔
توانائی کی قیمتیں
توانائی کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافے سے گھروں اور کاروباری اداروں کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ یکم جنوری سے ترکی میں گھروں کی توانائی کی قیمتوں میں 50 فیصد سے زیادہ جبکہ بزنس کمپنیوں اور توانائی کا بہت زیادہ استعمال کرنے والے گھروں کے لیے بجلی کے نرخوں میں 127 فیصد تک اضافہ ہوا۔ اس پر ملک بھر میں احتجاج دیکھنے میں آیا یہاں تک کہ مظاہرین توڑ پھوڑ پر اتر آئے۔ ریستورانوں اور دیگر کاروباروں کے مالکان نے اپنے اپنے بجلی کے بل سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کرنا شروع کر دیے تاکہ وہ بتا سکیں کے ان کا کاروبار تباہی کے دہانے پو پہنچ چُکے ہیں۔
ترکی کے وزیر خزانہ و مالیات نورالدین نباتی کہہ رہے ہیں کہ ترکی میں بجلی اور قدرتی گیس کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے وہ عالمی سطح پر اس وقت توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے مقابلے میں کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کی طرف سبسڈی دیے جانے کی وجہ سے ہے۔ ترک وزیر نے مظاہرین اور ناقدین سے ”انصاف پسندی سے کام لینے‘‘ کی اپیل کی۔ اس کے باوجود ترکی میں بہت سارے شعبوں کے کارکن ہڑتال کر رہے ہیں۔ کارگو، فوڈ ڈلیوری، فیکٹری اور ویئر وہاؤس یا گوداموں کے ورکرز نے کام روک دیا ہے۔ تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے والی کمپنیوں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا پر مہموں کے ذریعے ان معاشی مسائل کی طرف سب کی توجہ مبذول کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔
گذشتہ منگل کو صحت کےشعبے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں کارکنوں نے اک روزہ ہڑتال کی اور کام کے بہتر حالات اور تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا۔
ہفتے کو ایردوآن کی طرف سے بنیادی فوڈ سپلائیز پر ٹیکس میں واضح کمی کے اعلان کے ساتھ ساتھ وزیر خزانہ نباتی نے عوام کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک اہم اقدام کا اعلان کیا۔ انہوں نے سونا بچا کر رکھنے والے باشندوں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ اپنا اپنا سونا لا کر مخصوص مراکز میں جمع کرا دیں۔ یکم مارچ سے ایک ایسا نظام کام کرنا شروع کر دے گا جس میں اس قیمتی دھات کو مالیاتی نظام میں بطور ذخائر رکھا جائے گا۔ اس کے لیے 15 سو مقامات پر ایسے مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppppp`