تحریر: الیاس حامد ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ بڑے سے بڑے قومی مفاد پر بھی ہم روایتی و سیاسی کج روی اور تنگ نظری میں گھرے نظر آتے ہیں۔ کس قدر جائے افسوس ہے کہ ان معاملات میں بھی کینہ پروری، سیاسی پوائنٹ سکورنگ، صوبائی تعصب اور لسانی جھگڑے روایتی طور پر معمول کی طرح رہے کہ جن کی گنجائش بالکل نہیں ہے۔ دنیا اس وقت اپنے قومی مفاد اور ریاستی سلامتی پر ایسے ایسے بریک تھرو کرتی دکھائی دیتی ہے مگر ہم اینے دیرینہ دوست اور بااعتماد تزویراتی حلیف (سٹرٹیجک پارٹنر) کے معاملے پر بھی ایک پیج پر نظر نہ آئے اور وہی سطحی قسم کے الزامات اور اشکالات کے نشتر چلاتے رہے۔ یوں دنیا کے سامنے جو ایک تاریخی سنگ میل عبور کرنا تھا، کلی اتحاد و اتفاق کا زینہ نہ چڑھ سکا۔ ہمارے اتحادی چین کو یہ تاثر دیا گیا کہ اپوزیشن جماعتیں اور سیاسی پارٹیاں شاید ان منصوبوں سے اختلاف رکھتی ہیں۔
اس موقع پر اگر ہم ایک لمحے کیلئے تھوڑا صبر سے کام لیتے ہوئے ملکی مفاد کی خاطر ایثار کر لیتے اور روایتی سیاست کا کھیل نہ کھیلتے تو کوئی بڑا نقصان نہیں ہو جانا تھا، نہ ہی تنقید اور مخالفت کے نشتر چلانے کے لئے مواقع کھو جانے تھے۔ مگر ہماری روایتی جمہوری سیاست کا یہی ”حسن” ہے جس کے بارے میں جمہوریت کے بہی خواہ رطب اللسان رہتے ہیں اور اس حسن اختلاف کو تحسین آمیز انداز سے پیش کرتے ہیں۔ قطع نظر اس بات کے کہ یہ حسن واقعی حسن ہے بھی یا نہیں، ایسا کسی دوسرے ملک میں ہمیں نظر نہیں آتا، جہاں ملکی مفاد اور سلامتی کا مسئلہ ہو وہاں حزب اختلاف اور حزب اقتدار ایک نقطے پر متفق نظر آتے ہیں۔ بھارت ہو یا امریکہ یا دنیا کا کوئی اور ملک، ان کے اختلاف کے بھی کچھ دائرے ہیں اور یہ دائرے انہیں ملکی مفادات سے تجاوز نہیں کرنے دیتے۔ مگر ہمارے ہاں الٹی ہی گنگا بہتی ہے۔ ہم سب سے پہلے اپنے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں، کرسی، اقتدار، پیسہ، لالچ ہمیں سلامتی کے امور سے یکسر غافل کر دیتا ہے۔
پاک چین اقتصادی کوریڈور کے متعلق ملک کے سیاستدان جو بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں۔ اس کے پس پردہ نتائج و عواقب کو ہر ذی شعور سمجھ سکتا ہے۔ کبھی گوادر چین راہداری پر مسئلہ کھڑا کیا جاتا ہے اور کبھی گھسی پٹی اور تعصب زدہ گھٹیا سوچ کا اظہار کیاجاتا ہے کہ فلاں صوبہ کھاگیا اور فلاں کو محروم کر دیا گیا۔ انصاف اور حقوق کی بنیاد پر لگائے گئے آوازے سادہ لوح عوام کو بہت متاثر کرتے ہیں اور اسی پر زندگی بھر جمہوری سیاست کا پودا پروان چڑھتا ہے۔ نسل در نسل اسی انداز سے سیاست کا کھیل جاری ہے۔ کون کس طرح زیادہ سے زیادہ مفاد حاصل کرتا ہے۔ بس یہی گر اپنا کر ہمارے رہنما اور سیاسی قائدین حظ وافر سمیٹ رہے ہیں۔
اب اس سارے کھیل میں کوئی بڑے سے بڑا نقصان ہو جائے، ملکی سلامتی اور مفاد کو جو چاہے گزند پہنچ جائے، کوئی پروا نہیں ہے۔ ہم نے تو اپنے انداز اور مطلب کی سیاست کرنی ہے۔ یوں نفرت، محرومی، احساس استحصال کو پروان چڑھا کر یہ کھیل جاری ہے۔ اس میں وطن عزیز کا نقصان جتنابھی ہو جائے، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک یہی المیہ اور ٹریجڈی رہی ہے جس کا سامنا ہمارا وطن عزیز کر رہا ہے۔ ایسے لوگوں نے اس وطن کو اس قدر کھایا اور لوٹا ہے کہ اغیار بھی حیران ہیں کہ یہ ملک اپنا وجود کیسے برقرار رکھے ہوئے ہے۔
Kala Bagh Dam
یہ خبریں بھی میڈیا کی زینت بنیں اور ان کا فالو اپ مسلسل جاری ہے کہ امریکہ اور بھارت کو پاکستان اور چین کے حالیہ تاریخی اقتصادی معاہدہ اور اکنامک کوریڈور سے جس قدر تکلیف ہے، کسی اور چیز سے شاید ہی ہو۔ باوثوق ذرائع سے باتیں منظر عام پر آ چکی ہیں کہ پاک چین اقتصادی کوریڈور کو امریکہ اور بھارت نے ہدف بنا لیا ہے۔ کالا باغ ڈیم کی طرح اس منصوبے کو بھی ناکام بنانے کے لئے اپنی کٹھ پتلیوں کو متحرک کر چکے ہیں۔ یوں لسانی اور صوبائی عصبیت کو ہوا دے کر سیاست کرنے والے سیاستدان للکار رہے ہیں کہ ہمیں فلاں تحفظ ہے، ہمیں فلاں اعتراض ہے، اس اقتصادی منصوبے سے بڑے صوبے کو فائدہ ہو گا ہم محروم ہوں گے، وغیرہ وغیرہ۔
چینی صدر کے دورے پر 46 ارب ڈالر کا تاریخی معاہدہ ہوا۔ ان میں سے 51 معاہدے چینی صدر کے دورے پر طے پائے۔ ہر معاہدہ کروڑوں ڈالر کا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری پر اعتراض کرنے والے ذرا اس بات کا بھی خیال کریں کہ اس خطے میں کون سے عناصر ہیں جنہیں اس سے تکلیف ہے۔ بھارت اس وقت اپنی لابیوں کو ہر طرح سے متحرک کر رہا ہے تاکہ اس تاریخی منصوبے کو کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔ اس سلسلے میں بھارت نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس معاہدے پر شدید اعتراضات ہیں۔ اپنے ان تحفظات پر ہر فورم میں آواز اٹھائی جائے گی۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ سجاتا سنگھ نے چینی ہم منصب سے ہونے والی بات چیت کا میڈیا کو بتاتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر کے راستے اربوں ڈالر کے اس منصوبے پر بھارت خاموش نہیں بیٹھے گا۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ ان کا ملک چین اور سکون کے ساتھ نہیں بیٹھے گا۔اندازہ کیجئے چین اور پاکستان کے منصوبے سے بھارت کو کس قدر تکلیف ہے۔ اخلاقی طور پر دیکھا جائے تو یہ بات کس قدر عجیب اور فضول سی ہے اور ملکوں کے درمیان کسی تجارتی ڈیل اور اقتصادی معاہدے پر تیسرے ملک کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ یہ تو پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ والی بات ہوئی۔
بھارت نے پہلے دن سے ہی ہمیں تسلیم نہیں کیا اور اسی دن سے پاکستان کو توڑنے، کمزور کرنے اور بحرانوں کا شکار کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور سالمیت بھارت کیلئے موت کے مترادف ہے اور وہ اپنی موت کیسے قبول کر سکتا ہے۔ پاکستان اگر مضبوط ہوتا ہے تو بھارت کے لئے یہ امر کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ وہ کبھی اور کسی صورت بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان ترقی کے زینے چڑھے اور یہاں کی محرومیاں ختم ہوں۔
Development in Pakistan
اس سلسلے میں ہمارے ان سیاستدانوں اور جمہوری قائدین کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں جن کے اس فعل سے بھارت کو بالواسطہ یا بلاواسطہ فائدہ پہنچنا ہے۔ ان سیاستدانوں کو لسانی، صوبائی اور علاقائی نفرت کے بیج بونے اب چھوڑ دینے چاہئیں۔ ان کے اقدام سے صرف پاکستان کو نقصان پہنچتا ہے، دشمن اپنے ایجنڈے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ترقی کے منصوبے جس طرح پہلے سیاست کی نذر کئے اب بھی یہ آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ کالا باغ ڈیم کی طرح اقتصادی راہ داری بھی متنازعہ ہے۔ ایک مخصوص لابی متحرک ہے جن کی موجودگی سیاستدانوں اور میڈیا دونوں میں ہے۔ آئیں عہد کریں کہ پاکستان کو مضبوط بنائیں گے۔ اس کے خلاف ہر وار کو ناکام بنائیں گے، بھارت کے کسی مکروہ منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستان مضبوط ہو گا تو ہم مضبوط ہوں گے۔