تحریر : رانا اعجاز حسین گزشتہ دنوں گوادر بندرگاہ اتھارٹی کے چیئرمین دوستین جمال دین نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں جو جلد پائیہ تکمیل تک پہنچ جائے گا جبکہ تیسرا مرحلہ بھی مئی 2017ء میں مکمل ہو جائے گا۔ گوادر پورٹ دنیا میں سب سے گہری بندرگاہوں میں سے ایک ہے جس کے مکمل طور پر فعال ہونے سے پاکستان سمیت خطے اور دنیا بھر میں خوشحالی آئے گی۔ بلوچستان پاکستان کے کل رقبے کا 44 فیصد ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے سب سے زیادہ فائدہ بھی اسی صوبے کو پہنچے گا جبکہ اقتصادی راہداری منصوبے کے ذریعے دیگر صوبوں کو بھی فوائد حاصل ہونگے۔ پاک چین اکنامک کوریڈور کے لئے صوبوں نے مختلف مقامات کی نشاندہی کی تھی جن میں سے خیبرپی کے کی جانب سے رشکئی اکنامک زون ، سندھ کی جانب سے چائنہ اکنامک زون ، پنجاب کی جانب سے چائنہ اکنامک زون شیخوپورہ ، گلگت بلتستان کی جانب سے مہنداس اکنامک زون جبکہ کشمیر کی جانب سے بھمبر صنعتی زون کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ جس پر وفاقی حکومت کی جانب سے تجاویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے صوبوں کی جانب سے منتخب 9 زونز کی شمولیت کافیصلہ کیا گیا ہے۔ جبکہ گوادرمیں فری ٹریڈ زون، اسپیشل اکنامک زون، کوسٹل ہائی وے بھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔
قراقرم ہائی وے کو بہتر بنانے کے ساتھ موٹر وے ایم فور پر بھی چینی انجینئرز دن رات کام میں مصروف ہیں، جبکہ ریل ویز اور لائٹ ریلز کی اپ گریڈیشن بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) کی تکمیل سے ملک میں 100 تا 150 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری متوقع ہے۔اس عظیم الشان منصوبے کے تحت ملک کے مختلف علاقوں میں مخصوص اقتصادی زونز اور انڈسٹریل اسٹیٹس قائم کی جائیں گی جن میں چین کے علاوہ دنیا بھر کے سرمایہ کار سرمایہ کاری کرسکیں گے اور ان صنعتوں میں تیار کی جانے والی مصنوعات کی دنیا بھر میں برآمدات کی جائیں گی جس سے پاکستان کی صنعتی و اقتصادی نشوونما میں مدد ملے گی۔ سی پیک کی بدولت پاکستان کے چین کے ساتھ سیاسی تعلقات سٹرٹیجک اکنامک تعلقات میں تبدیل ہو چکے ہیں، اس سے ہماری ترقی اور خطے کے مستقبل پر مثبت اثرات مرتب ہوںگے۔ پاک چین اقتصادی کوریڈور منصوبہ کی تکمیل سے پاکستان نہ صرف اقتصادی طور پر مضبوط اور خوشحال ہوگا بلکہ یہ کوریڈور پاکستان کی مضبوط دفاعی لائن بھی ہو گا۔
پاک چین اقتصادی راہداری صرف پاکستا ن ہی کے لئے نہیںبلکہ پوری دنیا کیلئے خوشحالی کا پیش خیمہ ہے۔عالمی ماہرین اقتصادیا ت کے اندازے کے مطابق اس منصوبے سے چین ، جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا ء کے تقریباً تین ارب افراد کو فائدہ پہنچے گا۔ جبکہ پاکستان اور چین کے درمیان اس منصوبے کی بدولت مخصوص تجارتی رہداریوں کی تعمیر سے بر اعظم ایشیا ء کی تقریباً نصف آباد ی اس منصوبے کے مثبت اثرات سے فیض یاب ہوگی۔ پاک چین اقتصادی راہداری ایک ایسا ترقیاتی پروگرام ہے جس کے تحت جنوبی پاکستان میں واقع گوادر کی بندرگاہ کو ہائی ویز، ریلوے اور پائپ لائنوں کے ذریعے چین کے جنو ب مغربی علاقے شن جیانگ سے مربوط کیا جا رہاہے۔اس منصوبے کی تکمیل کے بعد چین، مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کے مابین ہونے والی تجارت پاکستان کے راستے سے ہونے لگے گی اور اکنامک کوریڈور ان ممالک کی تجارت کیلئے مرکزی دروازے کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ بالخصوص مڈل ایسٹ سے برآمد ہونے والا تیل گوادر کی بندر گاہ پر اترنے لگے گا کیونکہ گوادر کی بندرگاہ خلیج فارس کے دھانے پر واقع ہے۔ جبکہ اس تیل کی ترسیل پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے راستے سے چین کو ممکن ہوسکے گی۔
Oil
خلیج کے ممالک کا ساٹھ فیصدی تیل چین کو برآمد کیا جاتا ہے جو اس وقت 16000کلو میٹر کا طویل راستہ طے کرکے چینی بندرگاہوں تک پہنچتا ہے۔ جبکہ اکنامک کوریڈور کی بدولت یہ فاصلہ کم ہوکر صرف 2500 کلو میٹر رہ جائے گا۔اور یہ راستہ نہ صرف مختصر بلکہ محفوظ اور آسان بھی ہوگا۔ اس طرح پاکستان کو وسائل روزگار کے حصول کے علاوہ عالمی راہداری کے طور پر خطیر زرمبادلہ کا مستقل موقع بھی میسر آجائے گا۔عالمی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اکنامک کوریڈور منصوبے سے ایشیاء میں علاقائی تجارت و سرمایہ کاری کے بند دروازے کھل جائیں گے۔ اور اطراف میں واقع تمام ممالک کو معاشی ثمرات حاصل ہونگے اور یوں دنیا کی سب سے بڑی منڈی وجود میںآئے گی جو علاقائی استحکام اور خوشحالی کی بنیاد ثابت ہوگی۔ یہ امر مذید خوش آئند ہے کہ چین ، اپنے مغربی علاقے میں ”کاشغر سپیشل اکنامک زون ” تشکیل دے رہا ہے جو چین کو مغربی جانب سے وسطی ایشیاکے ساتھ اور جنوب میں جنوبی ایشیا کے ساتھ بھی جوڑ دے گا۔ چین نے گوادر میں متعدد میگا پراجیکٹس تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے ۔ چین ، گوادر کو پاکستان، ایران، وسطی ایشیا کی ریاستوں اور خود چین کیلئے ایک مرکزی بندرگاہ بنانے کا خواہا ں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے گوادر کی جلد آباد کاری کیلئے سال 2017 تک مختلف پراجیکٹ کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ان پراجیکٹس میں کوئلے،سورج اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے متعدد منصوبے بھی شامل ہیں۔
گوادر کے فری ٹریڈ زون میں بھی بیرونی سرمایہ کاروں کوایسی ہی رعائتیں فراہم کی جائیں گی، جس سے گوادر بیرونی سرمایہ کار ی کا گڑھ بن جائے گا۔توقع ہے کہ سپیشل اکنامک زوون، فری ٹریڈ زون اور ایکسپورٹ پراسیسنگ زون کی تشکیل کے بعد گوادر میں پاکستان کی ہنر مند اور غیر ہنر مند افرادی قوت کیلئے لاتعداد وسائل روزگار پیدا ہونگے جس سے یہاں عوام کے طرز زندگی میں نمایاں بہتری آئے گی۔سرمایہ کاری کے چینی منصوبوں کے مطابق گوادر کی ترقیاتی سرگرمیوں38 فیصدی حصہ بلوچستان کا ہے۔ اس ضمن میں مقامی لوگوں کو پیشہ وارانہ تربیت اور قرضے بھی فراہم کئے جائیں گے تاکہ صوبے میں چھوٹے کاروباروں کا ایک ایسا جال بچھ سکے جو بڑی صنعتوں کیلئے وینڈر انڈسٹری کا کردار انجا م دے سکے۔ چین نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے عالمی تناظر میں رونما ہونے والی کسی بھی تبدیلی کے باوجود چین پاکستان کے سا تھ روائتی دوستی کو قائم رکھتے ہوئے اپنے تمام معاہدوں پر پورا اترے گا۔
اسی طرح پاکستان بھی چین کے ساتھ دوستی کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ستون سمجھتا ہے۔لیکن بدلتے ہوئے جغرافیائی اور دفاعی ماحول میں دونوں ملکوں کو متعدد علاقائی اور عالمی چیلنجوں کا سامنا ہے۔لہٰذاہ، وقت کا تقاضہ ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت پاک چین دوستی کی تاریخی روایات کو مزید مستحکم بنانے کیلئے مشترکہ کوششیں جاری رکھیں۔ جبکہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ بھارت سمیت پاکستان کے کھلے اور چھپے دشمنوںکی آنکھ کا شہتیر بنا ہوا ہے ۔ لیکن ا ب ان شاء اللہ پاکستان کی ترقی کا سفر رکنے والا نہیں۔اہل پاکستان ترقی کی راہ میں حائل ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنادیں گے۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین ای میل:ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033