تحریر : خان فہد خان گزشتہ ماہ چینی صدر جب پاکستان کے دورے پرآئے تو پاکستانیوں کے لیے شاندار سرمایہ کاری کا تحفہ دے کر گئے ۔جس کے مطابق پاکستان میں تقریبا85ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کرے گا جس میں چین کے شہر کاشغر سے گوادر تک اقتصادی راہ داری بنائی جائیگی۔یہ منصوبہ صرف سڑکوں کے جال کے مترادف ہرگز نہیں بلکہ یہ وہ راستہ بننے جارہا ہے جس پر چلتے ہوئے پاکستان کی معشیت آسمان کو چھو لے گی کیونکہ اس میں ائر پورٹس ،بندرگاہ کو اپ گریڈ کرنے اورتوانائی وتعمیر ترقی کے کئی منصوبے ہیں۔ مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہ داری کو ہمارے کئی سیاسی قائدین نے متنازع بنانے کی کوشش کی۔ویسے تو اس منصوبے کا کوئی پہلوخفیہ نہیں تھا مگر روٹ کو ایشو بنا یا گیاکہ اس سے صرف دوبڑے صوبوں کو فائدہ ہو گا
جبکہ کے پی کے اور بلوچستان اس کے ثمرات سے محروم رہیں گے۔اسفند یار ولی نے تومنصوبے کو قصہ ماضی بنانے یعنی اس منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا اور بہت سی دھمکیاں لگائی گئی۔مگرپاک چین اقتصادی راہ داری کو متنازع کرنے کی نا جائز کوشش اُس وقت دم توڑ گئی جب جمعرات کے روز وزیر اعظم صاحب نے اے پی سی بلائی۔ پرائم منسٹر ہائوس میں تمام سیاسی پالیمانی جماعتوں کا اجلاس ہواجس میں بریفنگ دی گئی اور سب کے اعتراضات دور کئے گئے۔سب نے دیکھاایک ہی دن میں قائدین اس اقتصادی راہ داری کے منصوبے پر متفق ہو گئے اور اس طرح حکمران جماعت نے ایک بڑی کامیابی سمیٹ لی۔
اس منصوبے پر اتفاق رائے نہ ہوتا تو ڈر تھا کہ یہ منصوبہ اختلا فات کی نذرنہ ہوجاتا اور ماضی میں کالا باغ ڈیم کی طرح ناکام ہو جاتامگراب سب کے اتفاق کا مثبت پیغام دنیا بھرمیں گیا ہے ۔کراچی آپریشن اور ضرب عضب کی کامیابی کے نتائج میں پاکستان میں غیر ملکی اعتماد اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہواجس سے امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں معشیت کا سُنہرا دور زیادہ دور نہیں۔ مگر ہماری اس یقینی ترقی کے منصوبے چند پاکستان دشمن عناصر کو ہضم نہیں ہو رہے وہ کسی نہ کسی طریقے سے اس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس منصوبے کو کامیاب نہیں دیکھ سکتے کیونکہ اس منصوبے کی کامیابی سے پاکستان ایشین ٹائیگر بن جائے گا۔وہ سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دشمن کو ئی اور نہیں
India
بلکہ ہمارا ہمسائیہ ملک بھارت ہے ۔ابتداء سے اب تک پاکستان دشمنی کا کوئی موقع بھارت ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔تقسیم ہند کے بعد اثاثوں کی تقسیم ہو یا دریائوں کے پانی کی تقسیم بھارت نے مشکلات پیدا کی ۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہو یا کشمیر پر جابرانہ قبضہ ۔بھارت شروع سے ہی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں ہے ۔بھارت پاکستان دہشت گردی کروا کر عالمی دنیا میں یہ ثابت کروانا چاہتا ہے کہ پاکستان ایک محفوظ ملک نہیں ہے ۔اس ہی حکمت عملی کے تحت بھارت کراچی میں دہشت گردوں کی سرپرستی کر کے پاکستان کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنا چاہتا ہے جس کیلئے کراچی ائر پورٹ پر حملہ ہو یا حال ہی میں 13مئی کو میںخون کی ہولی کھیلی گئی جس میں اسماعیلی برادری پر حملہ کیا گیاجس کے نتیجہ میں 45لوگ مارے گئے اور25لوگ زخمی ہوئے سب بھارت کی سازشیں ہیں۔
جبکہ بلوچستان میں علیحدگی پسند وں کی پشت پناہی کر رہا ہے اورمشرقی پاکستان جیسے واقعہ کا خواہش مند ہے اس کیلئے پاکستان کا پرچم نذر آتش ہو یا قائد اعظم ریذڈنسی پر حملہ یہ سب دشمن ہی کی حکمت عملی ہے۔اس کے علاوہ بھارت بلوچوں، پختونوں اور پنجابیوں کو آپس میں بھی لڑوانا چاہتا ہے جس کی غرض سے سانحہ تربت جیسے واقعات کروائے اورگزشتہ جمعہ کی رات کو بھی مستونگ میں بھی دہشت گردی کی گئی جس میں پختون بھائیوں کو نشانہ بنایا گیااس واقعہ میں 22لوگوں کو شناخت کے بعد ماراگیا۔میں یہ تمام الزام ایسے ہی نہیں لگا رہا ان الزامات کے ثبوت ایک بھارتی مشیر کا بیان ہے۔ پچھلے دنوں بھارتی قومی سلامتی کے مشیراجیت دوول نے پاکستان میں دہشت گردی کا اعتراف کیا کہ وہ پاکستان کی کمزوریوں کا فائدہ اُٹھاتے ہیں،
یہ پاکستان کی معشیت ،اندرونی سکیورٹی کو مشکل بنانا اور افغانستان میں پاکستا ن کی پالیسی کو شکست دینا بھی ہو سکتا ہے۔اس طرح بھارت اپنے ناپاک عزائم سے پاکستا کی عالمی منڈیوں تک رسائی اور ایشین ٹائیگر کا خواب چکنا چور کر سکتاہے ۔بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کا امن خراب ہو اورچین خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے اس منصوبے کو لپیٹ دے ۔روز بہ روز دہشت گردی کے بڑھتے واقعات حکمرانوں کیلئے لمحہ فکر یہ ہے۔اب ہماری سیاسی اور عسکری قیادتوںکو چاہیے کہ ملک میں امن و امان ہر صورت ممکن بنائے اوربھارت کی جانب سے پاکستان دشمنی کے بیانات کا نوٹس لیتے ہوئے عالمی برادری میں آواز اُٹھائے۔حکمران منصوبے کو حقیقت کا روپ ڈھالنے میںہر ممکن قدم اُٹھائیں اوردشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملا ئے جائیں۔