اسلامی نظام حیات جن جامع ہدایات و تعلیمات پر مشتمل ہے ان میں بعض کا تعلق ایمانی عقائد سے ہے اور بعض کا تعلق بدنی ومالی عبادات اور مکارم اخلاق سے ہے۔ بعض کا تعلق معاشرتی اور عائلی امور و مسائل سے ہے اور بعض کا معاشی امور و معاملات سے۔ غرض یہ کہ اسلامی نظام حیات میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کوئی پہلو اور شعبہ ایسا نہیں جس کے بارے میں کے بارے میں تفصیلی یا اجمالی ہدایات و تعلیمات موجود نہ ہوں۔ اسلام میں معاشی امور و معاملات اورمعاشی حالات سے متعلق بھی واضح تعلیمات اور ہدایات موجود ہیں جن میں اسلا م نے بنی نوع انسان کو اسباب معیشت کا باقاعدہ حکم دیا ہے ،کہ آپ محنت سے کبھی منہ نہ موڑیں اور جتنی آپ محنت کریں گے اتنا ہی پھل ملے گا۔
درحقیقت صبر کے ساتھ معیشت کو مضبوط کرنا اطمنان قلب اور ایمان کی سلامتی کا باعث ہے ۔جس شخص کے معاشی حالات درست ہوں گے وہ اتنا ہی بہتر طریقے سے عبادات کرے گابلکہ وہ اللہ ربّ العزت کا ہر لمحہ شکر ادا کرے گا۔ معاش کے لیے اسلامی احکامات اوراصولوں میں محنت، اس کی ضرورت واہمیت کے علاوہ سرمایہ کاحصول وحرفت،زمین کی ملکیت،پیداواری صلاحیت اورپیداوارکے احکام،لین دین میں معاہدات اورعہدکی پابندی،صداقت،امانت،دیانت داری،راست بازی، حق گوئی اورسچائی کی تلقین،دھوکہ دہی،ذخیرہ اندوزی،ناجائزمنافع خوری، بلیک مارکیٹنگ اور ملاوٹ کی مذمت و ممانعت،رشوت اورسودکی قباحت وحرمت اورمخربِ اخلاق ذرائع آمدنی سے اجتناب ودیگرکئی اورپہلوؤں سے متعلق احکام وہدایات کووضاحت کے ساتھ بیان کیا گیاہے ۔ اس کے علاوہ معاشرتی زندگی کے حوالے سے ہمدردی، ایثاروقربانی اوراللہ کی راہ میں خرچ کو اہمیت دی گئی ہے ، اور فردو معاشرہ دونوں کو اس کاحکم دیا گیا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان عظیم ہے” جو شخص حلال طریقے سے دنیا کی طلب کرے تاکہ کسی سے مانگنے کی حاجت نہ پڑے اور اپنی اولاد پر خرچ کرنے اور اپنے ہمسایہ پر شفقت کے لئے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودہویں رات کے چاند کی مانند ہوگا”(جامع ترمذی)۔ ایک اور مقام پر نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان عظیم ہے” بعض گناہ ایسے ہیں کہ ان کو کوئی چیز دور نہیں کرتی سوائے فکر طلب معیشت کے ”۔ یعنی جب انسان حلال طریقے سے طلب معیشت میں سرگرداں رہتا ہے تو اس فکر کی وجہ سے بہت سے گناہوں سے بچ جاتا ہے۔
مثلاً کوئی شخص نکما رہ کر دوسروں کی ٹوہ لگاتا ہے ان سے متعلق اچھائی برائی سوچتا ہے تو شیطان اس پرغالب رہتا ہے چنانچہ ایسا شخص فارغ نکما رہنے کے بجائے حلال کمانے کی فکر میں لگ جائے تو گناہوں کی منصوبہ بندی یاکسی طرف توجہ یا التفات کرنے کا موقع ہی نہیں ملے گا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ربیع اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے درمیان مواخات قائم کی تو حضرت سعد نے انہیں کہا میں اپنے مال اور اہل میں آپ کا حصہ الگ کرتا ہوں، حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کے مال و اہل میں برکت دے مجھے بازار کا راستہ دکھا دیں۔
چنانچہ انہوں نے پورا دن کام کیا اور کچھ گھی اور پنیر لائے ”۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محنت مزدوری سے توکل میں نقص نہیں آتا ورنہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو امام متوکلین ہیں ایسا نہ کرتے بلکہ انہوں نے یہ چاہا کہ نفس پر مشقت ڈالیں اور عیش سے پرہیز کریں۔ جیسا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا ”عیش کی زندگی سے بچتے رہو اس لئے کہ اللہ کے بندے عیش کی زندگی میں نہیں رہتے” ۔ حضرت فضالہ بن عبید مصر کے امیر تھے مگر یہ پریشان حال، غبار آلود اور برہنہ پا رہتے ۔ ان سے پوچھا گیا آپ اس طرح کیوں رہتے ہیں،فرمایاسرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں زیادہ آرام دہ زندگی سے منع فرمایا اورہمیں حکم دیا کہ کبھی کبھارننگے پاؤں بھی ہوجایا کرو۔
اسباب استعمال کرنے والا آدمی خوب جانتا ہے کہ عطا کرنے والا اور روکنے والا صرف اللہ ربّ العزت ہے ، اور وہی اصل رازق ہے ، اور رزق کے اسباب پیدا کرنے والا ہے ، تعریف میں وہی اول ہے اور وہی آخر ہے ۔ کامیاب انسان وہ ہے جو اسباب معیشت قائم کرکے اللہ ربّ العزت کی طرف نظریں کئے رہے اور اس کا نفس اللہ ربّ العزت کی تقسیم پر مطمئن رہے ، اس کا قلب اپنے حصہ پر قانع و راضی رہے ، اس کا جسم اس معلوم میں متحرک ر ہے جس کی طرف اس کا رخ کیا گیا اور جو اس کے لئے سبب بنایا گیا،جس طرح محنت کررہا ہے اس کے اجر پر راضی رہے ۔ جو آدمی انتہائی مالدار اشخاص کی طرف نظر رکھے یا ان سے مانوس ہو، اور اپنے نصیب پر مطمئن نہ ہو تو اسے مال کے پائے جانے کے باوجود دل کی قوت حاصل نہ ہوگی اور مال کی کمی یا فقدان پر اسے قلبی اضطراب و وحشت یا کمزوری ہوگی، کیونکہ اس کے توکل میں نقص ہے۔
ایسا انسان جب آیت پڑھتا ہے (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ)”ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور ہم صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں” تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” تونے جھوٹ بولا تو خاص کرکے میری ہی عبادت نہیں کرتا اور نہ خاص کرکے مجھ ہی سے مدد چاہتا ہے اگر تو صرف میری ہی عبادت کرتا تو میری رضا پر اپنی خواہش کو ترجیح نہ دیتا۔ اور اگر تو صرف مجھ سے ہی مدد چاہتا تو اپنے مال و جان کی طرف سے سکون پاتا، بلکہ ہر معاملے میں اپنے ربّ پر اعتماد کرتا اور اسباب معیشت ملنے پر ربّ کا شکر ادا کرتا”۔ اور اگر کوئی بندہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ مجھے روزی نہ دینا تو اللہ تعالیٰ اس کی یہ دعا قبول نہیں کرتا بلکہ اسے فرماتا ہے” اے نادان میں نے تجھے پیدا کیا اور یہ ضروری ہے کہ میں تجھے ہمیشہ روزی بھی دوں”۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ خواص پر فاقہ ڈالتا ہے اور انہیں مخلوق کا محتاج بناتا ہے کہ وہ ان میں طمع رکھیں اور لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے کہ انہیں مت دینا، چنانچہ ان کے ہاتھوں سے انہیں محروم کرکے انہیں اپنی طرف لاتا ہے جب وہ لوگوں سے ناامید ہوکر اللہ تعالیٰ کی طرف آتے ہیں تو انہیں وہاں سے روزی دیتا ہے جہاں سے انہیں گمان بھی نہیں ہوتا۔ جبکہ جو شخص محنت کرتا ہے وہ کبھی خالی نہیں رہتا کیونکہ محنت کسی کی رائیگاں نہیں جاتی۔ ہمارے بیشتر نوجوان محنت سے نظریں چراکر مہنگائی اور بے روزگاری کا رونا روتے نظر آتے ہیں، اگر اچھی ملازمت یا بہترین کاروبار کی بجائے فی الوقت دستیاب ملازمت اور دستیاب وسائل کے مطابق کاروبار سے استفادہ کیا جائے تو بے روزگاری اور معاشی حالات کی تنگی پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ جبکہ عبادت الٰہی اور نیکی کے جذبے کے تحت فلاح انسانیت کے لیے خدمات سرانجام دے کر معاشی حالات کو بہتر کیا جاسکتا ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو کفایت شعاری کے ساتھ استحکام معیشت سے ہمکنار فرمائے ،آمین۔